آیات 48 - 49
 

وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور وہ کہتے ہیں: اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہو گا ؟

قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ؕ اِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ فَلَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ کہدیجئے: میں اللہ کی منشا کے بغیر اپنے نقصان اور نفع کا بھی اختیار نہیں رکھتا، ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے، جب ان کا مقررہ وقت آئے گا تو وہ گھڑی بھر کے لیے نہ تاخیر کر سکیں گے اور نہ تقدیم ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی: منکرین یہ بات طنز و تعریض اور تکذیب کے طور پر کہتے تھے: تمہاری دھمکی کب پوری ہوگی؟ اور اس فیصلے کا دن کب آئے گا جس کا ذکر کر کے ہم کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے ہو؟

۲۔ قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ: جواب میں فرمایا: اے رسولؐ آپ کہہ دیجیے کہ یہ وعدہ میں نے نہیں ، اللہ نے کیا ہے اور اسے پورا کرنے کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ سے ہٹ کر میں تو اپنے نقصان اور نفع کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ میں بذات خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ جو کچھ رکھتا ہوں وہ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ کے تحت رکھتاہوں۔

یہ اللہ کے مقابلے میں ذاتی اختیار کی نفی ہے۔ اللہ کی طرف سے اس کی مشیت و حکمت کے تحت عطا کردہ اختیارات کی نہ صرف یہ کہ نفی نہیں ہے بلکہ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔

لہٰذا اللہ کی طرف سے ما ذون ہستیوں کو شفیع اور وسیلہ سمجھ کر ان کی طرف رجوع کرنا اذن الٰہی کے مطابق ہے، شرک نہیں ہے:

یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ ۔۔۔۔ (۱۰ یونس: ۳)

وہ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔

لہٰذا سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غیر ماذون مشایخ و اولیاء پر قیاس کرنا کس قدر ناانصافی اور کج فہمی ہے۔ نہ معلوم بڑے فحول مفسرین کی نگاہیں ایسے مواقع پرصرف لَّاۤ اَمۡلِکُ پر مرکوز کیوں ہو جاتی ہیں اور اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ کو نظر انداز کرتے ہیں۔جملہ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ کے ساتھ بڑی دلچسپی ہوتی ہے اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ سے نگاہیں چراتے ہیں۔ بالکل اس شخص کی طرح جو کہتا ہے: کلو و اشربوا را فراگوش کن ۔ ولا تسرفوا را فراموش کن ۔ البتہ توحید کا تقاضا یہ ہے کہ ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ اذن دینے کا اختیار صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ کے اذن کے بغیر ساری دنیا کے انسان جمع ہو کر بھی ایک فرد کو نہ کوئی الٰہی منصب دے سکتے ہیں ، نہ ہی کسی کو ولی بنا سکتے ہیں۔

۳۔ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ: یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ کے جواب میں فرمایا: اس وعدے کا تعلق اس الٰہی قانون و دستور کے ساتھ ہے جو تمام قوموں پر حاکم ہے۔ وہ دستور یہ ہے: لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ ہر امت کی عمر معین ہے اور امتوں اور قوموں کو اپنی عمر پوری کرنا ہوں گی ان کی عمر پوری ہونے پر پھر ان کو مہلت نہیں دی جائے گی۔مزید تشریح کے لیے ملا حظہ فرمائیں : الاعراف آیت ۳۴۔

اہم نکات

۱۔ ہر فرد کی طرح ہر قوم کی بھی ایک عمر ہوتی ہے: لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ۔۔۔۔

۲۔سنت الٰہی تغیر ناپذیر ہے: فَلَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً ۔۔۔۔


آیات 48 - 49