آیت 46
 

وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔اور جس (عذاب) کا ہم ان کافروں سے وعدہ کر رہے ہیں اس کا کچھ حصہ ہم آپ کو زندگی میں دکھا دیں یا آپ کو پہلے (ہی دنیا) سے اٹھا لیں انہیں بہرحال پلٹ کر ہماری بارگاہ میں آنا ہے پھر جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں اس پر اللہ شاہد ہے۔

تفسیر آیات

منکرین سے جس عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اس کا ایک حصہ خواہ آپ کی زندگی میں دکھا دیں یا آپ کی زندگی کے بعد۔ بہر حال ان کو اس عذاب کا سامنا کرنا ہو گا۔ دوسری جگہ فرمایا:

فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ ۚ فَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا یُرۡجَعُوۡنَ﴿﴾ (۴۰ غافر: ۷۷)

پس آپ صبر کریں، یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے، اب انہیں ہم نے جو وعدہ (عذاب) دیا ہے اس میں سے کچھ حصہ ہم آپ کو (زندگی ہی میں ) دکھا دیں یا آپ کو دنیا سے اٹھا لیں، بہرحال انہیں ہماری طرف پلٹ کر آنا ہے۔

منکرین کو نکبت و ذلت اور شکست و خواری جیسے عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ یہ سورہ مکی ہونے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس وعدے کا مطلب سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ اللہ کے اس سچے وعدے کے بعد بدر کی نکبت سے لے کر فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ان کو طلقاء، آزاد کردہ قرار دینے تک، پھر حنین کی شکست کو نظر میں لایا جائے تو اللہ کے اس وعدے کی سچائی ثابت ہو جاتی ہے کہ اس عذاب کا ایک حصہ رسولؐ کی زندگی میں ان منکرین پر نازل ہو گیا۔ چنانچہ سابقہ امتوں کو دفعۃً عذاب دے کر تباہ کر دیا اور رسول آخر الزمانؐ کی رسالت کے منکرین کو تدریجاً ختم کر دیا۔ البتہ دفعۃً عذاب نازل نہ کرنا اس امت پر اللہ کی رحمت ہے اور وجود رسولؐ کی وجہ سے ہے۔

ہم نکات

۱۔ اللہ خود انسان کے تمام اعمال کا گواہ ہے۔ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ -

۲۔ منکرین کو دنیا میں بھی عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ -


آیت 46