آیت 45
 

وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ کَاَنۡ لَّمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ ؕ قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ اللّٰہِ وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔اور جس (قیامت کے) دن اللہ انہیں جمع کرے گا تو (دنیا کی زندگی یوں لگے گی) گویا وہ دن کی ایک گھڑی بھر سے زیادہ یہاں نہیں رہے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان لیں گے، جنہوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا وہ خسارے میں رہے اور وہ ہدایت یافتہ نہ تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ: جب ان منکرین کو اللہ کی بارگاہ میں جمع کیا جائے گا اور یہ لوگ عالم آخرت میں قدم رکھیں گے تو اپنے آگے ایک بے پایان اور لا محدود زندگی کا مشاہدہ کریں گے اور دنیا کی زندگی اس ابدی زندگی کے مقابلے میں نہایت حقیر محسوس ہو گی۔ گویا کہ ایک گھڑی تھی جو غفلت میں گزر گئی۔ ایک لمحہ سا تھا جو بیہودگیوں میں گزر گیا۔

۲۔ یَتَعَارَفُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ: جیسے ایک نشست تھی جس میں ایک دوسرے کا تعارف ہوا پھر وہاں سے اٹھ گئے۔ اس وقت انہیں احساس ہو گا کہ اس حقیر اور ناچیز زندگی کی خاطر اپنی ابدی زندگی کو تباہ کر کے کتنا بڑا خسارہ اٹھایا۔

اہم نکات

۱۔ عاقل انسان وہ ہے جو گزر گاہ سے قیام گاہ کے لیے کچھ لے کر جائے۔

۲۔ قیامت کا انکار، بہت بڑے خسارے کا باعث ہے۔


آیت 45