آیات 42 - 44
 

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّسۡتَمِعُوۡنَ اِلَیۡکَ ؕ اَفَاَنۡتَ تُسۡمِعُ الصُّمَّ وَ لَوۡ کَانُوۡا لَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے بیٹھے ہیں، پھر کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں خواہ وہ عقل نہ رکھتے ہوں؟

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡظُرُ اِلَیۡکَ ؕ اَفَاَنۡتَ تَہۡدِی الۡعُمۡیَ وَ لَوۡ کَانُوۡا لَا یُبۡصِرُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ کی طرف دیکھتے ہیں پھر کیا آپ اندھوں کو راہ دکھا سکتے ہیں خواہ وہ کچھ بھی نہ دیکھتے ہوں۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظۡلِمُ النَّاسَ شَیۡئًا وَّ لٰکِنَّ النَّاسَ اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ اللہ یقینا لوگوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ یَّسۡتَمِعُوۡنَ اِلَیۡکَ: کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قرآن کو سمجھنے کے لیے نہیں پڑھتے، صرف حروف و اصوات کو سنتے ہیں۔ اس سے آگے ان آیات کے مطالب ومعانی پر غور و فکر کے لیے آمادہ نہیں ہوتے اور عقل سے کام لینے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ اس طرح وہ لایعقل کی طرح ہوگئے۔ جیسا کہ آج کل بہترین لحن اور آواز میں لوگ قرآن مجید کی تلاوت کو بڑے شوق سے سنتے ہیں مگر ان آیات کے مطالب سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

۲۔ یَّنۡظُرُ اِلَیۡکَ: اسی طرح وہ آپ کو دیکھتے تو ہیں لیکن نہ انہیں آپ کے کمالات نظر آتے ہیں، نہ معجزات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

۳۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظۡلِمُ النَّاسَ: ان لوگوں سے سماعت اور بصارت کی قوت سلب ہونے کا اصل سبب یہ لوگ خود ہیں۔ ان کے اپنے کردار سے ان کو یہ دن دیکھنے کی نوبت آ گئی، ورنہ اللہ بلاوجہ ان سے یہ قوت سلب کر کے ان پر ظلم نہیں کرتا۔ اللہ کسی چیز کا محتاج نہیں ، ظلم کس لیے کرے گا، نہ ہی اللہ تعالیٰ میں انتقامی جذبات ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس طرح خود اپنے نفس پر ظلم کرتے اور اپنی ابدی زندگی کو تباہ کرتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اسلام کے منکر عقل و فہم سے عاری ہوتے ہیں : وَ لَوۡ کَانُوۡا لَا یَعۡقِلُوۡنَ ۔

۲۔ کفر، انسانی صلاحیتوں کے سلب ہونے کا باعث بنتا ہے: وَ لَوۡ کَانُوۡا لَا یُبۡصِرُوۡنَ ۔


آیات 42 - 44