آیات 33 - 35
 

کَذَّبَتۡ قَوۡمُ لُوۡطٍۭ بِالنُّذُرِ﴿۳۳﴾

۳۳۔ لوط کی قوم نے بھی تنبیہ کرنے والوں کو جھٹلایا،

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ حَاصِبًا اِلَّاۤ اٰلَ لُوۡطٍ ؕ نَجَّیۡنٰہُمۡ بِسَحَرٍ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ تو ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا چلا دی سوائے آل لوط کے جنہیں ہم نے سحر کے وقت بچا لیا،

نِّعۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ مَنۡ شَکَرَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اپنی طرف سے فضل کے طور پر، شکر گزاروں کو ہم ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قوم لوط نے نہ صرف حضرت لوط کو جھٹلایا بلکہ دیگر مشرکین کی طرح انبیاء علیہم السلام کی نبوت کا انکار کیا۔ وہ رسالت و نبوت کے منکر تھے۔

۲۔ ان پر پتھر برسا دینے والی ہوا چلا دی اور سب کو ہلاک کر دیا۔ اس کی تشریح سورہ شعراء آیت ۱۷۳ میں تشریح ہو گئی ہے۔

۳۔ اِلَّاۤ اٰلَ لُوۡطٍ: آل لوط کو اس عذاب سے اللہ نے بچا لیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت تھی۔ اس نعمت کے وہ مستحق ہوئے چونکہ وہ شکرگزار تھے۔

۴۔ کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ مَنۡ شَکَرَ: شکرگزاری اور قدردانی ایسا قابل ستائش اخلاق ہے جسے اللہ بہت پسند فرماتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ بھی قدر دان ہے:

اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ (۴۲ شوری۔۲۳)

اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، قدردان ہے۔

شکرگزاری بہت بلند مرتبہ اخلاق ہے۔ اس لیے اس مرتبے پر بہت کم لوگ فائز ہوتے ہیں۔

وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ (۳۴ سباء۔۱۳)

اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔


آیات 33 - 35