آیات 36 - 37
 

وَ مَنۡ یَّعۡشُ عَنۡ ذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ نُقَیِّضۡ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور جو بھی رحمن کے ذکر سے پہلوتہی کرتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔

وَ اِنَّہُمۡ لَیَصُدُّوۡنَہُمۡ عَنِ السَّبِیۡلِ وَ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اور وہ (شیاطین) انہیں راہ (حق) سے روکتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ راہ راست پر ہیں۔

تشریح کلمات

یَّعۡشُ:

( ع ش و ۔ ی ) عشی عن کذا کسی چیز سے آنکھیں بند کر لینا۔ اندھا ہو جانا۔

نُقَیِّضۡ:

( ق ی ض ) القیض کسی چیز پر غالب اور متولی ہونے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَنۡ یَّعۡشُ عَنۡ ذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ: ایک گناہ دوسرے گناہ اور ایک جرم دوسرے جرم کے ارتکاب کا زینہ بنتا ہے۔ جرم کا ارتکاب کرنے والا شیطان کے دام میں آسانی سے پھنس جاتا ہے۔ پھر جب وہ ناقابل ہدایت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے شیطان کے دام میں چھوڑ دیتا ہے۔

اللہ کی طرف سے سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اللہ اس سے ہاتھ اٹھا لے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دے۔ اس صورت میں اسے راہ حق دکھانے والا کوئی نہ ہو گا۔ اسی لیے لفظ نُقَیِّضۡ میں اسے شیطان کا ساتھی بنانے کی نسبت اللہ نے اپنی طرف دی ہے۔

۲۔ فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ: اب شیطان اس کا ساتھی ہو گا۔ اس صورت میں شیطان اسے کسی اچھے عمل کی طرف رخ کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

۳۔ وَ اِنَّہُمۡ لَیَصُدُّوۡنَہُمۡ عَنِ السَّبِیۡلِ: جب شیطان اس کا ساتھی ہو گا تو وہ ہر نیکی کی طرف جانے سے روکے گا اور شیطان کا یہ ساتھی رک جائے گا۔

۴۔ وَ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ: پھر نہ صرف یہ کہ وہ راہ حق سے دور ہو جائیں گے بلکہ اپنے آپ کو بڑے ہدایت یافتہ شمار کریں گے۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے وہ کبھی راہ راست پر نہیں آئیں گے۔

چنانچہ بہت سے تارکین صلوۃ کو اسی قسم کی غلط فہمی میں مبتلا دیکھا گیا کہ وہ اپنے آپ کو بڑا ہدایت یافتہ تصور کرتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ ذکر اور عبادت خدا سے منہ موڑنے والے، شیطان کے دام میں ایسے مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ان سے اپنی گمراہی کا شعور چھن جاتا ہے۔


آیات 36 - 37