آیات 38 - 39
 

حَتّٰۤی اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیۡتَ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکَ بُعۡدَ الۡمَشۡرِقَیۡنِ فَبِئۡسَ الۡقَرِیۡنُ﴿۳۸﴾

۳۸۔ جب یہ شخص ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا: اے کاش! میرے درمیان اور تیرے درمیان دو مشرقوں کا فاصلہ ہوتا، تو بہت برا ساتھی ہے۔

وَ لَنۡ یَّنۡفَعَکُمُ الۡیَوۡمَ اِذۡ ظَّلَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ فِی الۡعَذَابِ مُشۡتَرِکُوۡنَ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور جب تم ظلم کر چکے تو آج (ندامت) تمہیں فائدہ نہیں دے گی، عذاب میں یقینا تم سب شریک ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَنَا: اللہ کی بارگاہ میں پہنچنے پر پتہ چلے گا کہ وہ کس دام میں مبتلا رہا ہے۔ اب اسے نظر آئے گا کہ اس کے ساتھی شیطان نے اسے کہاں پہنچا دیا۔ اب یہ حسرت سے کہے گا کاش میرے اور اس برے ساتھی کے درمیان مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا جو دنیا میں قابل تصور دوری ہے۔ واضح رہے مشرق اور مغرب دونوں کے لیے مشرقین کہتے ہیں جیسے والد اور والدہ دونوں کے لیے والدین کہتے ہیں۔

۲۔ وَ لَنۡ یَّنۡفَعَکُمُ الۡیَوۡمَ: آج یہ ندامت اور یا لیت تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ دونوں ساتھیوں میں نفرت کے باوجود تم دونوں عذاب میں شریک ہوں گے۔ اکثر مفسرین نے کہا ہے: آج تم دونوں ساتھیوں کا عذاب میں شریک ہونا تمہیں فائدہ نہیں دے گا۔ میرے نزدیک یہ سیاق کے مطابق نہیں ہے کیونک یہ تو کہا جاتا ہے ندامت فائدہ نہیں دے گی، یہ نہیں کہا جاتا عذاب میں ساتھی کا شریک ہونا فائدہ نہیں دے گا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ ندامت تمہیں فائدہ نہیں دے گی اور تم اور تمہارا ساتھی، دونوں عذاب میں شریک ہوں گے۔


آیات 38 - 39