آیات 143 - 144
 

فَلَوۡ لَاۤ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُسَبِّحِیۡنَ﴿۱۴۳﴾ۙ

۱۴۳۔ پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے،

لَلَبِثَ فِیۡ بَطۡنِہٖۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ﴿۱۴۴﴾ۚ

۱۴۴۔ تو قیامت تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہ جاتے۔

تفسیر آیات

۱۔ اس تسبیح کا ذکر سورۂ انبیاء میں ہو گیا ہے۔ وہ یہ تھا: لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ۔ ( ۲۱ انبیاء : ۸۷) اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام اللہ کو ہمیشہ یاد رکھنے والوں میں سے تھے۔ اس یاد خدا کی وجہ سے انہیں نجات دے دی گئی اور دوبارہ نبوت کے منصب پر فائز کیا۔

۲۔ لَلَبِثَ فِیۡ بَطۡنِہٖۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ: اگر تسبیح کا ذریعہ ان کے ہاتھ میں نہ ہوتا تو اس مچھلی کا شکم ان کی قبر بن جاتا اور سمندر کی تہ میں قیامت تک مدفون رہ جاتے۔ اگر وہ مچھلی کے شکم میں نہ جاتے تو بھی انہیں دوبارہ منصب نبوت پر بر قرار نہ کیاجاتا اگر تسبیح کی صورت میں یاد خدا میں رہنے والا نہ ہوتے۔ سورہ قلم میں فرمایا:

لَوۡ لَاۤ اَنۡ تَدٰرَکَہٗ نِعۡمَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالۡعَرَآءِ وَ ہُوَ مَذۡمُوۡمٌ﴿۴۹﴾ (۶۸ القلم: ۴۹)

اگر ان کے رب کی رحمت انہیں سنبھال نہ لیتی تو وہ برے حال میں چٹیل میدان میں پھینک دیے جاتے۔

آپ کی اس تسبیح کی وجہ سے نعمت الٰہی نے انہیں سنبھالا دیا اور نبوت کا منصب برقرار رکھا۔

بعض روایات میں آیا ہے کہ وہ تین دن تک، بعض میں ایک دن، بعض میں آیا ہے کہ چند گھنٹے شکم میں رہے۔


آیات 143 - 144