آیات 78 - 81
 

الَّذِیۡ خَلَقَنِیۡ فَہُوَ یَہۡدِیۡنِ ﴿ۙ۷۸﴾

۷۸۔ جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی مجھے ہدایت دیتا ہے،

وَ الَّذِیۡ ہُوَ یُطۡعِمُنِیۡ وَ یَسۡقِیۡنِ ﴿ۙ۷۹﴾

۷۹۔ اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے،

وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ ﴿۪ۙ۸۰﴾

۸۰۔ اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔

وَ الَّذِیۡ یُمِیۡتُنِیۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡنِ ﴿ۙ۸۱﴾

۸۱۔ اور وہی مجھے موت دے گا پھر مجھے زندگی عطا کرے گا۔

تفسیر آیات

حضرت ابراہیم علیہ السلام رب العالمین سے اپنی وابستگی کے دلائل پیش فرما رہے ہیں۔

۱۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ میرا خالق ہے جسے مشرکین بھی مانتے ہیں لہٰذا وہ میرے امور زندگی کا مدبر ہے کیونکہ خلق و تدبیر ناقابل تفریق ہے۔ جو خالق ہے وہی تدبیر کر سکتا ہے اور جو خالق نہیں وہ ان امور کی تدبیر ہی نہیں کر سکتا جنہیں اس نے وجود نہیں دیا۔ ان کے رگ و پے کو وہ کیا جانے۔

۲۔ فَہُوَ یَہۡدِیۡنِ: ان تدبیری امور میں ایک اہم چیز ہدایت و رہنمائی ہے۔ اس دنیا کی زندگی کے ہر قدم اور آخرت کی نجات و سعادت کے لیے اس کی ہدایت کی ضرورت ہے جو اس نے میرے وجود میں ودیعت فرمائی ہے۔ فَہُوَ یَہۡدِیۡنِ کی فاء تفریع سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت، تخلیق کا نتیجہ ہے چونکہ وہی میرا خالق ہے پس وہی میری ہدایت کرتا ہے:

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی﴿﴾ (۲۰ طہ: ۵۰)

موسیٰ نے کہا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی۔

اس کی طرف سے ملنے والی ہدایات میں میری بقا و ارتقا کا راز مضمر ہے۔ اس کی عطا کردہ ہدایت نہ ہوتی تو میں نہ ماں کی چھاتی چوسنے کا سلیقہ رکھتا، نہ میرا معدہ ماں کے دودھ کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا۔ اس کی عنایت کردہ ہدایت نہ ہوتی تو میرے پاس ایسا ضمیر نہ ہوتا جس سے میں اپنے خالق اپنے معبود کو پہچان سکوں۔

۳۔ وَ الَّذِیۡ ہُوَ یُطۡعِمُنِیۡ وَ یَسۡقِیۡنِ: میرا رب وہ ہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ میرے جسم کی ضرورت کی تمام چیزیں خلق فرماتا ہے اور انہیں میری دست رسی میں رکھتا ہے۔ اشارہ ہے مشرکین کے اس عقیدے کی رد کی طرف جو اپنے بعض معبودوں کو رزق کا رب سمجھتے ہیں۔

۴۔ وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ: جب میں اپنی نادانی کی وجہ سے فطرت الٰہی کی خلاف ورزی کر بیٹھتا ہوں اور مریض ہو جاتا ہوں یا کسی ناگہانی حادثے کی وجہ سے میں مریض ہو جاتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے۔ مشرکین کے اس نظریے کی رد، جو شفا اپنے بعض معبودوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

۵۔ وَ الَّذِیۡ یُمِیۡتُنِیۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡنِ: میرا رب صرف اس زندگی کا مدبر نہیں ہے بلکہ کل دنیوی و اخروی زندگی کا مدبر ہے۔ موت و حیات اس کی تدبیر کا ایک اہم حصہ ہیں۔

اہم نکات

۱۔ میرا رب وہ اللہ ہے جس کے ہاتھ میں میری خلقت، ہدایت، رزق، شفا، حیات اور موت ہے اورجو میری امیدوں کا مرکز ہے۔


آیات 78 - 81