آیت 82
 

وَ الَّذِیۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لِیۡ خَطِیۡٓئَتِیۡ یَوۡمَ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۸۲﴾

۸۲۔ اور میں اسی سے امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الَّذِیۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لِیۡ خَطِیۡٓئَتِیۡ: میرا رب وہ ہے جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ میری خطا معاف فرمائے گا۔

واضح رہے انبیاء علیہم السلام معصوم عن الخطا ہیں۔ معصوم جب اپنی طرف کسی خطا یا گناہ کی نسبت دیتے ہیں تو یہ تصور صحیح نہیں ہے کہ وہ خطا اور گناہ انہی معنوں میں ہے جن کا ہم مرتکب ہوتے ہیں۔ ہماری خطا اور گناہ مولا کی نافرمانی کے معنوں میں ہے جب کہ معصوم کی خطا اور گناہ، نافرمانی کے معنوں میں نہیں بلکہ آداب بندگی کے تحت بندگی کا حق ادا نہ ہونے کا اعتراف ہے کہ کبھی غیر عبادت میں کوئی وقت گزرا ہے۔ کھانے پینے، سونے میں۔ معصوم اسے خطا تصور کرتے ہیں یا دن رات عبادت کر کے یہ تصور کرتے ہیں کہ عبادت کا حق ادا نہ ہوا۔ وہ اللہ کی عظمتوں اور نعمتوں کے مقابلے میں اپنی عبادت کو ہیچ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:

مَا عَبَدْنَاکَ حََقَّ عِبَادَتِکَ ۔ (مستدرک الوسائل ۱: ۱۳۴)

ہم نے تیری اس طرح بندگی نہیں کی کہ بندگی کا حق ادا ہو جائے۔

اہم نکات

۱۔ حقیقی بندگی یہ ہے کہ ہر ممکن عبادت کر کے اسے ہیچ سمجھا جائے۔


آیت 82