آیات 64 - 67
 

حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذۡنَا مُتۡرَفِیۡہِمۡ بِالۡعَذَابِ اِذَا ہُمۡ یَجۡـَٔرُوۡنَ ﴿ؕ۶۴﴾

۶۴۔ حتیٰ کہ جب ہم ان کے عیش پرستوں کو عذاب کے ذریعے گرفت میں لیں گے تو وہ اس وقت چلا اٹھیں گے۔

لَا تَجۡـَٔرُوا الۡیَوۡمَ ۟ اِنَّکُمۡ مِّنَّا لَا تُنۡصَرُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ آج مت چلاؤ! تمہیں ہم سے یقینا کوئی مدد نہیں ملے گی۔

قَدۡ کَانَتۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَکُنۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ تَنۡکِصُوۡنَ ﴿ۙ۶۶﴾

۶۶۔ میری آیات تم پر تلاوت کی جاتی تھیں تو اس وقت تم الٹے پاؤں پھر جاتے تھے۔

مُسۡتَکۡبِرِیۡنَ ٭ۖ بِہٖ سٰمِرًا تَہۡجُرُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ تکبر کرتے ہوئے، افسانہ گوئی کرتے ہوئے، بیہودہ گوئی کرتے تھے۔

تشریح کلمات

سٰمِرًا:

( س م ر ) السمر ۔ رات کی تاریکی کو کہتے ہیں۔ پھر رات کو باتیں کرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

یَجۡـَٔرُوۡنَ:

( ج ء ر ) الجؤار کے معنی زور دار آواز نکالنے اور چیخنے کے ہیں۔

تَہۡجُرُوۡنَ:

( ھ ج ر ) الھُجُرُ کے معنی ہذیان کے ہیں جس کے برا ہونے کی وجہ سے اسے ترک کر دینا چاہے۔ حدیث میں ہے: وَ لاَ تَقُولُوا ھُجْراً ۔۔۔۔ (مستدرک الوسائل ۲: ۳۶۴) ’’فحش کلامی نہ کرو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری وقت میں قلم اور دوات طلب کیا تو فقالوا ھجر رسول اللہ ص ملاحظہ: صحیح بخاری کتاب الجھاد و السیر ۔

تفسیر آیات

۱۔ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذۡنَا: ان کافروں میں خاص کر عیش پرستوں کا ذکر اس لیے ہو رہا ہے کہ یہ لوگ زیادہ غفلت میں ہوتے ہیں، یہی لوگ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اور یہی لوگ انبیاء علیہ السلام کی تکذیب میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ ان عیش و نوش میں زندگی بسر کرنے والوں پر جب عذاب ہو تو وہ چلّاتے بھی دوسروں سے زیادہ ہیں۔

۲۔ لَا تَجۡـَٔرُوا: ان سے تحقیر اور شماتت کے طور پر کہا جائے گا۔ مت چلاؤ! آج صرف اللہ کی طرف سے نصرت آ سکتی ہے لیکن تمہیں اللہ کی طرف سے کوئی نصرت نہیں آئے گی۔

۳۔ قَدۡ کَانَتۡ: دنیوی زندگی میں ہماری آیات سننے کے لیے تم حاضر نہیں تھے۔ آج تمہاری فریاد سننے کے لیے کوئی حاضر نہ ہو گا۔

۴۔ مُسۡتَکۡبِرِیۡنَ ٭ۖ بِہٖ: ضمیر قرآن کی طرف ہے چونکہ تلاوت آیات کا پہلے ذکر ہوا ہے۔ تم دنیا میں قرآن کے مقابلے میں تکبر کرتے تھے اور آیات الٰہی سننا تمہارے لیے باعث عار تھا۔

۵۔ سٰمِرًا: سمر رات کو گپیں ہانکنے کو کہتے ہیں۔ جو عموماً دیہی زندگی میں رات کو داستانیں سنایا کرتے تھے۔

۶۔ تَہۡجُرُوۡنَ: آیت میں فرمایا: تم اپنی راتوں کو جب ادھر ادھر کی بیہودہ باتوں میں لگے رہتے تھے اس میں تم ہماری آیات کو موضوع سخن بنایا کرتے تھے اور ان آیات کے بارے میں بیہودہ گوئیاں کرتے تھے آج کس منہ سے ہمیں پکارتے ہو۔

اہم نکات

۱۔ قرآنی تعلیم کے مقابلے میں آج کے عیش پرست بھی تکبر کرتے ہیں۔

۲۔ دنیا کے عیش پرستوں کے لیے عذاب زیادہ سنگین ہو گا۔


آیات 64 - 67