آیات 68 - 70
 

اَفَلَمۡ یَدَّبَّرُوا الۡقَوۡلَ اَمۡ جَآءَہُمۡ مَّا لَمۡ یَاۡتِ اٰبَآءَہُمُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۫۶۸﴾

۶۸۔ کیا انہوں نے اس کلام پر غور نہیں کیا یا ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی بات آئی ہے جو ان کے پہلے باپ دادا کے پاس نہیں آئی تھی؟

اَمۡ لَمۡ یَعۡرِفُوۡا رَسُوۡلَہُمۡ فَہُمۡ لَہٗ مُنۡکِرُوۡنَ ﴿۫۶۹﴾

۶۹۔ یا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانا ہی نہیں جس کی وجہ سے وہ اس کے منکر ہو گئے ہیں؟

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ بِہٖ جِنَّۃٌ ؕ بَلۡ جَآءَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ اَکۡثَرُہُمۡ لِلۡحَقِّ کٰرِہُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ یا وہ یہ کہتے ہیں: وہ مجنون ہے؟ نہیں بلکہ وہ ان لوگوں کے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

کفار کی طرف سے اس قرآن کو مسترد کرنے کی چند ایک وجوہ قابل تصور ہیں:

۱۔ اَفَلَمۡ یَدَّبَّرُوا الۡقَوۡلَ: مسترد کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے قرآن کو سننے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ان پر حق آشکار ہو جاتا۔

۲۔ اَمۡ جَآءَہُمۡ: دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ یہ قرآن اور یہ رسول اس دنیا میں پہلی بار آیا ہے۔ اگر اس سے پہلے کوئی رسول نہ آیا ہوتا تو ان کو یہ کہہ کر مسترد کرنے کا حق پہنچتا تھا کہ اللہ لوگوں کی ہدایت کے لیے رسول بھیجتا تو سب لوگوں کی طرف بھیجتا صرف ہماری طرف کیوں بھیجا ہے۔

۳۔ اَمۡ لَمۡ یَعۡرِفُوۡا رَسُوۡلَہُمۡ: کیا ان کے پاس جو رسول آیا ہے وہ انجان ہے جس سے یہ پہلے کبھی واقف نہ تھے دفعتاً ان کے درمیان نمودار ہوا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے بلکہ یہ رسول ان کی اپنی برادری کے ہیں:

فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ (۱۰ یونس: ۱۶)

اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔

وہ ان کو امین کہہ کر پکارتے تھے۔ ان سب کو علم ہے کہ اس رسول نے کبھی کسی انسان کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دی جیسا کہ قریش کے بعض سرداروں نے اعتراف کیا تھا۔ لہٰذا یہ عذر بھی درست نہیں ہے۔

۴۔ اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ بِہٖ جِنَّۃٌ: یا کیا یہ رسول جن زدہ ہے جس کی وجہ سے ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔ یہ عذر بھی قابل اعتنا نہیں ہے بلکہ یہ رسول تو ایک جامع نظام حیات لے کر آیا ہے جسے پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے اور ایک ایسا کلام پیش کرتا ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔


آیات 68 - 70