آیت 47
 

وَ نَضَعُ الۡمَوَازِیۡنَ الۡقِسۡطَ لِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ فَلَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَیۡئًا ؕ وَ اِنۡ کَانَ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ اَتَیۡنَا بِہَا ؕ وَ کَفٰی بِنَا حٰسِبِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور ہم قیامت کے دن عدل کا ترازو قائم کریں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا اور اگر رائی کے دانے برابر بھی (کسی کا عمل) ہوا تو ہم اسے اس کے لیے حاضر کر دیں گے اور حساب کرنے کے لیے ہم ہی کافی ہیں۔

تشریح کلمات

مِثۡقَالَ:

( ث ق ل ) المثقال: ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے۔

خَرۡدَلٍ:

( خ ر د ل ) رائی کے دانے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ نَضَعُ الۡمَوَازِیۡنَ الۡقِسۡطَ: میزان اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے چیزوں کو پرکھا جائے۔ قیامت کے دن عدل کا میزان لگ جائے گا۔ یہ ترازو عدل و انصاف کا ترازو ہو گا۔ یہ ترازو کس قسم کا ہو گا، اس پر بحث و تحقیق کا فائدہ نہیں۔ صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ قیامت کے روز انسان کے اعمال پرکھ لیے جائیں گے۔ اعمال میں سے نیک اعمال کا وزن ہو گا اور برے اعمال کا کوئی وزن نہیں ہو گا۔ مزید وضاحت کے لیے سورہ اعراف : ۸ ملاحظہ فرمائیں۔

۲۔ فَلَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَیۡئًا: یہ عدل و انصاف کا ترازو ہو گا۔ یہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرنے اور عدل و انصاف دینے کا آلہ ہے۔

۳۔ وَ اِنۡ کَانَ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ: خواہ وہ عمل ایک رائی کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو ہم اسے سامنے لائیں گے۔ خواہ نیکی ہو یا برائی۔ چنانچہ سورہ الزالزال میں آیا ہے:

فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ (۹۹ زلزال: ۷۔ ۸)

پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔

۴۔ اَتَیۡنَا بِہَا: ہم اسے سامنے لائیں گے۔ آیت کے اس جملے میں صراحت ہے کہ خود عمل حاضر کیا جائے گا۔ یہاں اتینا بجزائہا ہم اس عمل کی جزا پیش کریں گے کی تاویل درست نہ ہو گی چونکہ جزا کے لیے اَتَیۡنَا استعمال نہیں ہوتا۔

۵۔ وَ کَفٰی بِنَا حٰسِبِیۡنَ: حساب کے لیے ہم کافی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا میزان اور حساب دو چیزیں نہیں ہیں بلکہ یہ ترازو، ترازوئے حساب ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ ہر شخص کو اللہ کے سامنے حساب دینا ہو گا۔

۲۔ اللہ کے سامنے جانے کے لیے اپنے عمل میں وزن پیدا کرنا چاہیے۔


آیت 47