آیت 45
 

قُلۡ اِنَّمَاۤ اُنۡذِرُکُمۡ بِالۡوَحۡیِ ۫ۖ وَ لَا یَسۡمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ اِذَا مَا یُنۡذَرُوۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ کہدیجئے : میں وحی کی بنا پر تمہیں تنبیہ کر رہا ہوں مگر جب بہروں کو تنبیہ کی جائے تو (کسی) پکار کو نہیں سنتے ۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ اِنَّمَاۤ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم مل رہا ہے کہ آپ کہدیں کہ میرا کام صرف اور صرف تمہاری تنبیہ کرنا ہے کہ تم ہلاکت میں نہ پڑو۔ یہ تنبیہ اپنی طرف سے نہ ہو گی بلکہ وحی کے ذریعے ہو گی۔ بِالۡوَحۡیِ وحی نازل نہ ہونے کی صورت میں حضورؐ انتظار فرماتے تھے۔ کسی سوال کا جواب تک ارشاد نہیں فرماتے تھے۔

وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی (۵۳ نجم:۳۔۴)

وہ خواہش سے نہیں بولتا۔ یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔

واضح رہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجتہاد کی ضرورت پیش نہیں آتی، چونکہ یہ بات سب کے ہاں متفقہ ہے کہ جہاں صریح نص ہو وہاں اجتہاد نہیں ہو سکتا۔ رسولؐ کے لیے کوئی دلیل مبہم نہیں ہوتی کہ اجتہاد کرنا پڑے۔ رسولؐ کے لیے سب احکام صریح منصوص ہوتے ہیں۔

۲۔ وَ لَا یَسۡمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ: رسولؐ کی تنبیہ ان لوگوں کے لیے بے اثر ہوتی ہے جن میں حق کو قبول کرنے کے لیے صلاحیت اور ظرفیت نہیں ہوتی۔ تنبیہ میں کوئی خامی نہیں۔ جن لوگوں نے تنبیہ سننا تھی ان میں خامی ہے۔ آواز میں خامی نہیں، سننے والے کانوں میں خامی ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی طرف سے انذار ہوتا ہے، اجبار نہیں ہوتا۔

۲۔ رسولؐ تابع وحی ہیں، تابع اجتہاد نہیں ہیں۔

۳۔ اجتہاد دلیل کو سمجھنے کے لیے ہوتا ہے، خود دلیل کو اجتہاد نہیں کہتے۔


آیت 45