آیت 56
 

وَ یَجۡعَلُوۡنَ لِمَا لَا یَعۡلَمُوۡنَ نَصِیۡبًا مِّمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ ؕ تَاللّٰہِ لَتُسۡـَٔلُنَّ عَمَّا کُنۡتُمۡ تَفۡتَرُوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور یہ لوگ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے ان کے لیے حصے مقرر کرتے ہیں جنہیں یہ جانتے بوجھتے تک نہیں، اللہ کی قسم اس افترا کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ یَجۡعَلُوۡنَ لِمَا لَا یَعۡلَمُوۡنَ نَصِیۡبًا: وہ ایسی چیزوں کے لیے نیاز و بھینٹ چڑھاتے ہیں جن کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں ہے کہ ان چیزوں کو بھی خدائی امور میں مداخلت کا حق ہے یا ان چیزوں کا اللہ کی سلطنت میں حصہ اور شرکت ہے بلکہ اپنے ظن و تخمین کے مطابق ان بتوں کے سامنے اپنے نذرانے پیش کرتے ہیں۔

اس آیت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ مشرکین ان بتوں کے لیے بھینٹ چڑھاتے ہیں جو یہ تک نہیں جانتے کہ ان کے لیے کوئی نذرانہ پیش کیا گیا ہے۔ اس تفسیر کے مطابق لَا یَعۡلَمُوۡنَ سے مراد بت ہیں۔

۲۔ تَاللّٰہِ: اللہ تعالیٰ خود اپنی ذات کی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے جو افترا کیا ہے، غلط نسبت دی ہے، اس کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا۔ اس آیت سے یہ بات صراحت کے ساتھ واضح ہو گئی:

i۔ جو علم و شعور نہیں رکھتے ان کے لیے نذرانہ پیش کرنا جیسے بے شعور بتوں کے لیے،

ii۔ جن کے بارے میں علم نہ ہو کہ وہ خدائی امور میں مداخلت کا حق رکھتے ہیں ان کے لیے نذرانہ پیش کرنا افتراء، اللہ کی طرف جھوٹی نسبت ہے۔ لَتُسۡـَٔلُنَّ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس قدر بڑی جسارت ہے۔

اگر کوئی مال اللہ کے نام خرچ کرتا ہے، اس کا ثواب اہدا کرتا ہے تو یہ افتراء علی اللّٰہ نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ غیر اللہ کو رب سمجھ کر اس کے تقرب کے لیے مال خرچ کرنا سنگین افتراء ہے۔


آیت 56