آیات 53 - 55
 

وَ مَا بِکُمۡ مِّنۡ نِّعۡمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَیۡہِ تَجۡـَٔرُوۡنَ ﴿ۚ۵۳﴾

۵۳۔ اور تمہیں جو بھی نعمت حاصل ہو وہ اللہ کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو تم اس کے حضور زاری کرتے ہو۔

ثُمَّ اِذَا کَشَفَ الضُّرَّ عَنۡکُمۡ اِذَا فَرِیۡقٌ مِّنۡکُمۡ بِرَبِّہِمۡ یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۵۴﴾

۵۴۔ پھر جب اللہ تم سے تکلیف دور کر دیتا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ اپنے رب کے ساتھ شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔

لِیَکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اٰتَیۡنٰہُمۡ ؕ فَتَمَتَّعُوۡا ۟ فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ اس طرح وہ ان نعمتوں کی ناشکری کرنا چاہتے ہیں جو ہم نے انہیں دے رکھی ہیں سو ابھی تم مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

تشریح کلمات

الجؤار:

( ج ء ر ) کے اصل معنی وحشی جانوروں کے گھبراہٹ کے وقت زور سے آواز نکالنے اور چیخنے کے ہیں۔ پھر تشبیہ کے طور پر دعا اور تضرع میں افراط اور مبالغہ کرنے پر بولا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا بِکُمۡ مِّنۡ نِّعۡمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ: بیرونی عوامل کے انسانی فطرت پر بہت سے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ مثلاً علم دوستی، جمالیات پرستی اور احسان کرنے کا جذبہ، بالاتفاق انسانی فطری امور ہیں۔ اس کے باوجود برے ماحول اور بری تربیت کی وجہ سے انسان ان فطری تقاضوں کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح خدا پرستی ہے کہ وہ بھی انسان کی فطرت اور جبلت میں رچی بسی ہوتی ہے لیکن بیرونی عوامل کی وجہ سے انسان اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔

۲۔ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ: جب انسان کسی مشکل میں مبتلا ہوتا ہے تو بیرونی عوامل کا دباؤ ہٹ جاتا ہے اور انسان اپنی فطرت سلیم کے ساتھ سرگوشی کرنے لگتا ہے تو فطرت بنیادی طور پر اپنے خالق سے مانوس ہے۔ اسے فوراً پکارتا ہے اور صرف اسی سے لو لگاتا ہے۔

۳۔ جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو پھر بیرونی عوامل کے دباؤ میں آتا ہے اور دیگر مشرکوں کی طرح یہ بھی اللہ کو بھول جاتا ہے اور شرک کرنے لگتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ معبود وہ ہے جس کو انسان مصیبت کے وقت پکارتا ہے: فَاِلَیۡہِ تَجۡـَٔرُوۡنَ ۔


آیات 53 - 55