آیات 57 - 59
 

وَ یَجۡعَلُوۡنَ لِلّٰہِ الۡبَنٰتِ سُبۡحٰنَہٗ ۙ وَ لَہُمۡ مَّا یَشۡتَہُوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور انہوں نے اللہ کے لیے بیٹیاں قرار دے رکھی ہیں جس سے وہ پاک و منزہ ہے اور (یہ لوگ) اپنے لیے وہ (اختیار کرتے ہیں) جو یہ خود پسند کرتے ہیں (یعنی لڑکے)۔

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿ۚ۵۸﴾

۵۸۔ اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو مارے غصے کے اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے ۔

یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ اس بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کیا اسے ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دے یا اسے زیر خاک دبا دے؟ دیکھو! کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں؟

تفسیر آیات

عرب جاہلیت کے مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور ساتھ دیویوں کا تصور بھی تھا جنہیں اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے اور اپنی بیٹیوں کو جب زندہ درگور کرتے تو کہتے تھے: الحقوا البنات بالبنات ۔ ان بیٹیوں کو ان بیٹیوں کے ساتھ ملا دو۔

مشرکین اپنے لیے اپنی پسند کی اولاد بیٹے چاہتے تھے اور اللہ کے لیے بیٹیاں۔ دوسری جگہ فرمایا:

اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَہُ الۡاُنۡثٰی ﴿﴾ تِلۡکَ اِذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزٰی ﴿﴾ (۵۳ نجم:۲۱۔ ۲۲)

کیا تمہارے لیے تو بیٹے اور اللہ کے لیے بیٹیاں ہیں ؟ یہ تو پھر غیر منصفانہ تقسیم ہے۔

خود ان کی اپنی پسند کے مطابق اپنے لیے بیٹے اور اللہ کے لیے بیٹیاں قرار دیتے تھے ورنہ اللہ کے لیے تو اولاد قرار دینا خود اپنی جگہ بہت بڑی جسارت ہے۔

مشرکین لڑکی کو عار و ننگ تصور کرتے تھے۔ غیرت کے نام پر اسے زندہ درگور کر دیتے اور اقتصادی طور پر بھی اسے بوجھ تصور کرتے تھے۔ قحط کے خوف سے بھی اپنی اولاد، خاص کر بیٹیوں کو مار ڈالتے تھے۔

ایسے ماحول میں مبعوث ہونے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انقلاب کس قدر عظیم ہے کہ اپنی بیٹی کو اپنا ٹکڑا قرار دیتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ جس قوم کی طرف رسولؐ مبعوث ہوئے وہ بے شعوری کی اس منزل پر تھی کہ اپنی اولاد کو زندہ درگور کرتی تھی۔

۲۔ مشرکین جس چیز کو اپنے لیے عار سمجھتے تھے اسے اللہ کے ساتھ منسوب کرتے تھے۔


آیات 57 - 59