آیات 51 - 52
 

وَ قَالَ اللّٰہُ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اِلٰـہَیۡنِ اثۡنَیۡنِ ۚ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور اللہ نے فرمایا: تم دو معبود نہ بنایا کرو، معبود تو بس ایک ہی ہے پس تم صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔

وَ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَہُ الدِّیۡنُ وَاصِبًا ؕ اَفَغَیۡرَ اللّٰہِ تَتَّقُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کی ملکیت ہے اور دائمی اطاعت صرف اسی کے لیے ہے تو کیا تم اللہ کے سوا دوسروں سے ڈرتے ہو؟

تشریح کلمات

و َوَاصِبًا:

( و ص ب ) الوصب کے معنی دائمی مرض کے ہیں: وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ وَّاصِبٌ ۔ (۳۷ صافات: ۹) آیت میں دین بمعنی اطاعت ہے اور واصب بمعنی دائم ہے۔ صحاح میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص کسی بات کا ہمیشہ پابند رہتا ہے تو کہتے ہیں: وصب الرجل علی الامر ۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اِلٰـہَیۡنِ اثۡنَیۡنِ: معبود ایک ہی ہے، ایک سے زائد معبود باطل ہے لہٰذا دو معبود بنانے سے باطل شروع ہو جاتا ہے۔ آگے وہ ان کی تعداد جس قدر بھی بڑھائیں سب کفر و شرک اور باطل ہے۔ مقصود یہ ہے کہ غیر خدا کو معبود نہ بناؤ۔ آگے غیر خدا ایک ہو یا کئی ایک سب اس میں آ گئے۔

دوسری تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ مشرکین کے معبود دو قسم کے ہوتے تھے: ایک معبود خالق ہے اور دوسرا معبود رب اور مدبر ہے۔ آگے مدبر ایک ہو یا کئی، یہ سب ایک نوع سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کے معبود دو میں منحصر ہوتے تھے: الٰہ الخلق اور الٰہ التدبیر ۔

آسمانوں اور زمین میں اسی الٰہ واحد کی سلطنت ہے۔ اس میں کسی اور کی شرکت نہیں۔ لہٰذا عبادت و اطاعت میں بھی کسی کی شرکت نہیں ہے۔

۲۔ وَ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ: اس کائنات کا حقیقی مالک اللّٰہ ہے۔ مالک وہ ہوتا ہے کہ مملوک اس کے تصرف میں ہو تو کل کائنات اللّٰہ کے تصرف میں ہے۔ لہٰذا وہی اس کائنات کی تدبیر کر سکتا ہے۔ دوسرے جو اس کائنات میں کسی چیز کے مالک نہیں ہیں بلکہ خود مملوک ہیں ، وہ کیسے تدبیر کرسکتے ہیں ؟

۳۔ وَ لَہُ الدِّیۡنُ وَاصِبًا: دین کا مطلب خواہ دستور دنیا ہو، خواہ اطاعت یا جزا، ہر صورت میں دین صرف اللہ کے لیے ہے چونکہ مالک دستور زندگی دے سکتا ہے اور اطاعت بھی مالک کی ہوتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ صرف اللہ پوری کائنات کا مالک ہے۔ خلق اور تدبیر دونوں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔


آیات 51 - 52