آیات 49 - 50
 

وَ لِلّٰہِ یَسۡجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ دَآبَّۃٍ وَّ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ ہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ اور آسمانوں اور زمین میں ہر متحرک مخلوق اور فرشتے سب اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔

یَخَافُوۡنَ رَبَّہُمۡ مِّنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ﴿٪ٛ۵۰﴾

۵۰۔ وہ اپنے رب سے جو ان پر بالادستی رکھتا ہے ڈرتے ہیں اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ دَآبَّۃٍ: رینگنے اور چلنے والے جاندروں کو کہتے ہیں۔ آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ آسمانوں میں فرشتوں کے علاوہ چلنے والے جاندار ہیں جو اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں۔ یہ مخلوق فرشتوں کے علاوہ اس لیے ہے کہ فرشتوں کا الگ ذکر ہوا ہے۔ یہ چلنے والی مخلوق اور فرشتے اللہ کے لیے سجدہ کرنے سے تکبر نہیں کرتے اور اپنے رب کا خوف دل میں رکھتے ہیں۔

۲۔ مِّنۡ فَوۡقِہِمۡ: وہ رب جو ان پر بالا دستی اور فوقیت رکھتا ہے۔

اہل سنت کے علمائے سلف کا یہ موقف رہا ہے کہ آیات قرآنی میں کسی قسم کی تاویل و توجیہ جائز نہیں ہے۔ الفاظ قرآن سے جو بھی معنی بظاہر سامنے آتے ہیں اسی پر محمول کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ یَخَافُوۡنَ رَبَّہُمۡ مِّنۡ فَوۡقِہِمۡ سے وہ استدلال کرتے ہیں کہ اللہ ’’اوپر‘‘ ہے اور اللہ کے لیے بالا نشینی ثابت ہے۔ چنانچہ علامہ شام قاسمی نے محاسن التاویل ، علامہ ذہبی نے کتاب العلو ، ابن قیم نے الجیوش الاسلامیۃ اور حکیم ابن رشد نے مناھج الدولۃ میں طویل بحث کی ہے اور سب کی رائے سے ثابت کیا ہے کہ اللہ ’’اوپر‘‘ ہے۔ تفصیل کے لیے مقدمہ ملاحظہ فرمائیں۔


آیات 49 - 50