آیت 91
 

قَالُوۡا یٰشُعَیۡبُ مَا نَفۡقَہُ کَثِیۡرًا مِّمَّا تَقُوۡلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡنَا ضَعِیۡفًا ۚ وَ لَوۡ لَا رَہۡطُکَ لَرَجَمۡنٰکَ ۫ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡنَا بِعَزِیۡزٍ﴿۹۱﴾

۹۱۔ انہوں نے کہا: اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور بیشک تم ہمارے درمیان بے سہارا بھی نظر آتے ہو اور اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سنگسار کر چکے ہوتے (کیونکہ) تمہیں ہم پر کوئی بالادستی حاصل نہیں ہے ۔

تشریح کلمات

مَا نَفۡقَہُ:

( ف ق ھـ ) سمجھ کے معنوں میں ہیں۔

رَہۡطُکَ:

( ر ھـ ط ) الرھط قوم و عشیرہ کے معنی میں ہے جس کا اطلاق بقول بعضے دس آدمیوں سے کم کی جماعت پر ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ مَا نَفۡقَہُ کَثِیۡرًا مِّمَّا تَقُوۡلُ: عموماً تنگ نظر لوگ اپنے خیالات سے مختلف باتوں کو سننے اور سمجھنے کے لیے آمادہ ہی نہیں ہوتے۔ مکہ کے لوگ بھی اس تنگ نظری میں کسی سے کم نہ تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کا قصہ اسی مناسبت اور اس مناسبت سے بھی کہ بنی ہاشم کے خوف سے یہ لوگ حضور (ص) کی طرف اپنا ہاتھ دراز نہیں کرتے تھے، بیان کیا جا رہا ہے۔

اس تعبیر میں حضرت شعیب علیہ السلام کی اہانت بھی ہے کہ تمہارے قبیلے کی وجہ سے تم پر ہم ہاتھ نہیں اٹھاتے ورنہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ تعصب، عقل و فہم کے سامنے بڑی رکاوٹ ہے: مَا نَفۡقَہُ کَثِیۡرًا مِّمَّا تَقُوۡلُ ۔۔۔۔

۲۔ الٰہی نظریات کے حامل افراد کو ہمیشہ کمزور سمجھا جاتا رہا ہے: وَ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡنَا ضَعِیۡفًا ۔۔۔۔

۳۔ دینی اقدار سے محروم لوگ ہمیشہ قدروں کی نہیں طاقت کی، زبان سمجھتے ہیں : وَ لَوۡ لَا رَہۡطُکَ ۔۔۔۔


آیت 91