آیت 92
 

قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَہۡطِیۡۤ اَعَزُّ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اتَّخَذۡتُمُوۡہُ وَرَآءَکُمۡ ظِہۡرِیًّا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ﴿۹۲﴾

۹۲۔ شعیب نے کہا : اے میری قوم! کیا میرا قبیلہ تمہارے لیے اللہ سے زیادہ اہم ہے کہ تم نے اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہے؟ میرا رب یقینا تمہارے اعمال پر احاطہ رکھتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَہۡطِیۡۤ: قوم کے توہین آمیز موقف کے جواب میں حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کی فکری سفاہت اور عقلی بےمایگی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اللہ کے مقابلے میں ایک قبیلے کے چند افراد کو طاقتور، قابل لحاظ سمجھتے ہیں۔ جس ذات کے قبضے میں ان کی جان ہے اس سے بے پرواہی برتتے، اسے پس پشت ڈال دیتے ہیں اور چند بے بس انسانوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔

۲۔ اِنَّ رَبِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ: میرا رب تمہارے اس موقف پر احاطہ رکھتا ہے جس کے تحت تم اللہ تعالیٰ کو نظر انداز کرتے اور قوم کے چند افراد کا لحاظ رکھتے ہو۔ اس جملے میں اس قوم پر آنے والے عذاب کی طرف اشارہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ مادی انسان کا بھروسہ قوم و قبیلے پر ہوتا ہے جب کہ الٰہی انسان کا بھروسہ اللہ کی ذات پر ہوتا ہے: اَرَہۡطِیۡۤ اَعَزُّ عَلَیۡکُمۡ ۔۔۔۔


آیت 92