آیت 57
 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے (یہ قرآن) تمہارے پاس نصیحت اور تمہارے دلوں کی بیماری کے لیے شفا اور مومنین کے لیے ہدایت اور رحمت بن کر آیا ہے۔

تشریح کلمات

مَّوۡعِظَۃٌ:

( و ع ظ ) الوعظ کے معنی ایسے زجر و توبیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو۔

تفسیر آیات

قرآن کی تکذیب کرنے والوں کو عذاب دارین سے آگاہ کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر قرآن مجید میں مضمر انسان ساز خواص وا وصاف کو بیان فرمایا:

۱۔ مَّوۡعِظَۃٌ: قرآن موعظہ ہے۔ انسان کو ہر قسم کے خطرات سے بچاتا ہے اور قرآنی و الٰہی مواعظہ پر عمل کرنے والا شخص پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ سورہ بقرہ آیت۲۳۲ میں موعظہ الٰہی کے بارے میں فرمایا:

ذٰلِکُمۡ اَزۡکٰی لَکُمۡ وَ اَطۡہَرُ ۔۔۔۔

تمہارے لیے نہایت شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے۔

موعظ سے انسان میں ارتقائی صلاحیت آجاتی ہے اور ظرف پاک ہو جاتا ہے۔

۲۔ وَ شِفَآءٌ: قرآن دل کے تمام روحانی امراض کے لیے شفا ہے۔ قرآن میں تعصب کے بغیر غور و فکر کرنے سے دلوں میں موجود تمام شکوک و شبہات کے لیے تشفی، ہر قسم کے تزلزل اور اضطراب کے لیے عافیت مل جاتی ہے اور شرک، کفر، نفاق، باطل پرستی، ظلم و عداوت کا مؤثر ترین علاج میسر آ جاتا ہے۔ دل کے موضوع پر ہم پہلے بات کر چکے ہیں۔

۳۔ وَ ہُدًی: قرآن، انسان کو ہر قسم کے ہلاکت خیز راستوں سے بچا کر راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے جس میں دنیا و آخرت دونوں کی سعادت موجود ہے۔

۴۔ وَّ رَحۡمَۃٌ: قرآن، رحمت خدا اور ارحم الراحمین کی تجلی ہے مگر یہ خاص ہے مؤمنین کے کے لیے کیونکہ زمین زرخیز ہو تو نمی فائدہ دیتی ہے۔ غیر مؤمن میں اللہ کی رحمت کے لیے ظرف نہیں ہوتا۔ یہ ہیں وہ ارتقائی مراحل جو موعظہ سے شروع ہو کر رحمت پر ختم ہوتے ہیں۔ پہلے تین مراحل کے مخاطب عامۃ الناس ہیں۔ ان مراحل کو طے کرنے کے بعد انسان ایمان کی منزل پر فائز ہو جاتا ہے اور اس کے بعد رحمت خدا اس کے شامل حال ہو جاتی ہے۔

قرآن اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعہ موعظہ ملتا ہے، شفا ملتی ہے، ہدایت میسر آتی ہے، آخر میں رحمت الٰہی سے مؤمن سرشار ہو جاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ بدبخت ہے وہ شخص جس پر اللہ کے مواعظہ اثر نہ کریں ، جس کے دل کی بیماریاں قرآن سے دور نہ ہوں ، جو قرآن کو اپنا راہنما نہ بنائے، جس کے لیے قرآن رحمت الٰہی کا ذریعہ نہ بنے۔

۲۔ قرآن فضل خدا وندی کا سر چشمہ ہے: قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ ۔۔۔۔


آیت 57