آیت 66
 

لَا تَعۡتَذِرُوۡا قَدۡ کَفَرۡتُمۡ بَعۡدَ اِیۡمَانِکُمۡ ؕ اِنۡ نَّعۡفُ عَنۡ طَآئِفَۃٍ مِّنۡکُمۡ نُعَذِّبۡ طَآئِفَۃًۢ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا مُجۡرِمِیۡنَ﴿٪۶۶﴾

۶۶۔ عذر تراشی مت کرو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو، اگر ہم نے تم میں سے ایک جماعت کو معاف کر بھی دیا تو دوسری جماعت کو ضرور عذاب دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تَعۡتَذِرُوۡا: یہ منافقین اگرچہ مؤمن نہیں تھے تاہم وہ اظہار ایمان کرتے تھے تو بظاہر ان پر اسلام کا حکم جاری ہوتا تھا۔ اب چونکہ اس اظہار ایمان کے بعد اظہار کفر بھی ہوگیا، لہٰذا اب یہ کافر شمار ہوں گے۔

دوسری تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ شروع میں واقعی ایمان لے آئے تھے، بعد میں کافر ہوگئے۔ چنانچہ ان میں سے بعض کی توبہ قبول ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ لوگ ایمان کے بعد کفر میں مبتلا ہو گئے تھے۔

۲۔ اِنۡ نَّعۡفُ عَنۡ طَآئِفَۃٍ مِّنۡکُمۡ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین میں سے ایک گروہ نے اپنے نفاق سے توبہ کی ہے اور سچے دل سے اسلام میں داخل ہو گیا ہے اور اللہ نے ان کے گزشتہ نفاق اور استہزا کو معاف فرمایا ہے۔

۳۔ نُعَذِّبۡ طَآئِفَۃًۢ: البتہ ایک گروہ اپنے نفاق اور جرم پر قائم رہا جو مستوجب عذاب قرار پایا۔

اہم نکات

۱۔ جرم کے ارتکاب کے بعد عذر تراشی سے نہیں ، توبہ سے بات بنتی ہے۔


آیت 66