آیت 65
 

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوۡضُ وَ نَلۡعَبُ ؕ قُلۡ اَ بِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَ رَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمۡ تَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ اور اگر آپ ان سے دریافت کریں تو وہ ضرور کہیں گے : ہم تو صرف مشغلہ اور دل لگی کر رہے تھے، کہدیجئے: کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑا رہے تھے۔

تشریح کلمات

نَخُوۡضُ:

( خ و ض ) الخوض کے معنی پانی میں اترنے اور اس کے اندر چلے جانے کے ہیں۔ بطور استعارہ کسی کام میں مشغول رہنے پر بولا جاتا ہے۔ قرآن میں اس کا زیادہ تر استعمال فضول کاموں میں لگے رہنا پر ہوا ہے۔

تفسیر آیات

مختلف اور متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی تضحیک کرتے تھے۔ جب بذریعہ وحی رسولؐ کو اس کی اطلاع ہو جاتی اور ان منافقین سے دریافت کیا جاتا تو وہ جو جواب دیتے اس جواب میں بھی اللہ، اس کی آیتوں اور رسول اسلامؐ کا مذاق اڑاتے تھے۔ یعنی یہ کہنا کہ ہم خوش گپی میں یہ باتیں کہ گئے۔ یہ خود اللہ اور رسولؐ کے ساتھ استہزا ہے۔

اہم نکات

۱۔ کسی ادبی نکتے یا لطیفہ گوئی، ہنسی مذاق میں بھی اللہ اور رسولؐ کے بارے میں خلاف ادب بات نہیں کرنی چاہیے۔


آیت 65