آیات 125 - 126
 

قَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا مُنۡقَلِبُوۡنَ﴿۱۲۵﴾ۚ

۱۲۵۔ انہوں نے کہا: ہمیں تو اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

وَ مَا تَنۡقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنۡ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتۡنَا ؕ رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسۡلِمِیۡنَ﴿۱۲۶﴾٪

۱۲۶۔اور تو نے ہم میں کون سی بری بات دیکھی سوائے اس کے کہ جب ہمارے رب کی نشانیاں ہمارے پاس آئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے، اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان فرما اور ہمیں اس دنیا سے مسلمان اٹھا لے۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا مُنۡقَلِبُوۡنَ: جو شخص ایمان کی لذت چکھ لیتا ہے، وہ موت سے خائف نہیں ہوتا بلکہ وہ اس وقتی اور زوال پذیر زندگی پر ابدی زندگی کو ترجیح دیتا ہے۔ اللہ کی نشانیوں کا بہت نزدیک سے مشاہدہ کرنے کے بعدجو ایمان لایا جائے، وہ ناقابل تزلزل ایمان ہوتا ہے۔ ایمان کی اس منزل پر فائز ہونے پر اگر سزا دی جائے تو اس پر مؤمن کیف محسوس کرتا ہے اور رضاً بقضائہ و تسلیماً لامرِہٖ کا شیرین نعرہ بلند کرتا ہے۔

۲۔ وَ مَا تَنۡقِمُ مِنَّاۤ: طاغوت کے دستور میں سب سے بڑا جرم ایمان لانا ہے۔ چنانچہ آج کی طواغیت ایمان میں راسخ لوگوں کو اپنا حریف اور مجرم سمجھتی ہے۔

۳۔ رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا: طاغوت کے ظلم و ستم کے خلاف مؤمن کا اسلحہ صبر ہے اور صبر ہمیشہ ظلم پر فتح حاصل کر لیتا ہے۔

۴۔ وَّ تَوَفَّنَا مُسۡلِمِیۡنَ: ہمارا خاتمہ اسلام پر، ایمان پر ہو۔ کہیں پیش آنے والے صعوبتیں ہم کو دین سے پھر نہ دیں۔ کہیں پیش آنے والے کسی امتحان میں رہ نہ جائیں۔ چنانچہ ہر ایک کو اپنا خاتمہ بخیر کرنے کے لیے اہتمام کرنا چاہیے۔

اہم نکات

۱۔ ایمان بالمعاد یا مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھنے والا اللہ کی بارگاہ میں جانے کا مشتاق ہوتا ہے: اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا مُنۡقَلِبُوۡنَ ۔

۲۔ طاغوت کے نزدیک مؤمن ہونا سب سے بڑا جرم ہے: وَ مَا تَنۡقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنۡ اٰمَنَّا ۔۔۔۔


آیات 125 - 126