آیات 123 - 124
 

قَالَ فِرۡعَوۡنُ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَکُمۡ ۚ اِنَّ ہٰذَا لَمَکۡرٌ مَّکَرۡتُمُوۡہُ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ لِتُخۡرِجُوۡا مِنۡہَاۤ اَہۡلَہَا ۚ فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔ فرعون نے کہا: قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا تم اس پر ایمان لے آئے یقینا یہ تو ایک سازش ہے جو تم نے اس شہر میں کی ہے تاکہ اہل شہر کو یہاں سے بے دخل کرو پس عنقریب تمہیں (اس کا انجام ) معلوم ہو جائے گا۔

لَاُقَطِّعَنَّ اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے ضرور کاٹوں گا پھر تم سب کو ضرور بالضرور سولی چڑھا دوں گا۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ فِرۡعَوۡنُ: ایمان لانے والے جادوگر عبادت گاہوں کے کاہن لوگ تھے، جو سرکاری ملازمین اور معبود بادشاہ کے وظیفہ خوار تھے۔ جو کل حضرت موسیٰ (ع) کے دعوائے رسالت کو باطل ثابت کرنے کی انتھک کوشش کر رہے تھے، آج نہ صرف اس رسالت پر ایمان لاتے ہیں بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔

طاغوت کو اپنی رعیت کی ہر حرکت اور ہر جنبش پر تسلط حاصل ہے اور اس مملکت میں اس کی اجازت کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ اس کی مرضی کے بغیر حضرت موسیٰ (ع) پر ایمان لانے پر برہم ہوتا ہے اور کہتا ہے: میری اجازت کے بغیر تم موسیٰ (ع) پر ایمان کیوں لائے۔ گویا طاغوت اس خیال میں ہوتا تھا کہ جس طرح لوگوں کی گردنوں پر اس کا تسلط قائم ہے، ان کے دلوں اور ضمیروں پر بھی اس کی حکومت ہے۔ وہ ہر رونما ہونے والے واقعے کو اپنے خلاف سازش سمجھتا ہے اور ہر بات پر اسے اپنے تخت و تاج کی فکر لاحق رہتی ہے کیونکہ اللہ کی طرف دعوت اور فرعونیت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ تشدد، ظلم اور طاقت استعمال کرنا طاغوت کا پرانا طریقہ کار ہے اور حق کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔

۲۔ اِنَّ ہٰذَا لَمَکۡرٌ: موسیٰ اور یہ جادوگر، دونوں نے مل کر سازش کی ہے کہ وہ سرزمین مصر پر قابض ہو جائیں اور قبطیوں کو بے دخل کر دیں۔

۳۔ لَاُقَطِّعَنَّ اَیۡدِیَکُمۡ: ہاتھ پاؤں کاٹنے کی سزا بقولے سب سے پہلے فرعون نے رائج کی ہے۔

اہم نکات

۱۔ دلیل اور منطق کے مقابلے میں طاقت استعمال کرنا طاغوت کی روش رہی ہے۔

۲۔ دل طاقت کے سامنے نہیں، دلیل و منطق کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے۔


آیات 123 - 124