آیت 127
 

وَ قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اَتَذَرُ مُوۡسٰی وَ قَوۡمَہٗ لِیُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِہَتَکَ ؕ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ نَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ۚ وَ اِنَّا فَوۡقَہُمۡ قٰہِرُوۡنَ﴿۱۲۷﴾

۱۲۷۔ اور قوم فرعون کے سرداروں نے کہا: فرعون!کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو آزاد چھوڑ دے گا کہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اور وہ تجھ سے اور تیرے معبودوں سے دست کش ہو جائیں؟ فرعون بولا: عنقریب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیں گے اور ہمیں ان پر بالادستی حاصل ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَتَذَرُ مُوۡسٰی: درباریوں نے کہا: موسیٰ اور اس کی قوم زمین میں فساد پیدا کر رہے ہیں۔ ان کو زندگی کا حق نہیں ملنا چاہیے۔

۲۔ وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِہَتَکَ: دوسرا جرم یہ ہے کہ موسیٰ خود آپ سے اے فرعون اور آپ کے معبود سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔

۳۔ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبۡنَآءَہُمۡ: اس آیت میں جہاں فرعون کی طرف سے اسرائیلیوں کی نسل کشی کا ذکر ملتا ہے، وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرعون اپنی رعیت کا معبود تھا اور خود فرعون کا کوئی اور معبود تھا ۔ چنانچہ ۱۸۹۶ء میں قدیم مصری آثار کا کتبہ نکلا ہے جو اس وقت مصری میوزم میں کتبہ ۳۴۰۲۵ میں محفوظ ہے۔ اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اس کی عبارت یہ ہے:

جب سے دیوتا وجود میں آیا ہے، اس وقت سے مصر معبود رَع کی واحد نسل ہے اور منفتاح اسی معبود کی نسل ہے اور معبود شو کے تخت نشین ہیں اور معبود رَع نے مصر کی طرف نظر ڈالی۔ اس سے منفتاح پیدا ہوا اور اسرائیل کو مٹا دیا گیا۔ اس کا بیج بھی باقی نہ رہا اور فلسطین مصر کے زیر سلطنت آیا۔ (المنار۹ : ۸۰)

یعنی نسل کشی کی وہی مہم جاری رکھیں گے جو حضرت موسیٰ (ع) کی ولادت سے پہلے بھی تھی۔

اہم نکات

۱۔ درباری وظیفہ خوار ہمیشہ انسان سوز مظالم کا مشورہ دیتے ہیں: اَتَذَرُ مُوۡسٰی وَ قَوۡمَہٗ ۔۔۔۔

۲۔ طاقت کے نشے میں اٹھنے والا قدم خود اس کی پسپائی کا سبب بنتا ہے: وَ اِنَّا فَوۡقَہُمۡ قٰہِرُوۡنَ ۔


آیت 127