آیات 117 - 119
 

وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنۡ اَلۡقِ عَصَاکَ ۚ فَاِذَا ہِیَ تَلۡقَفُ مَا یَاۡفِکُوۡنَ﴿۱۱۷﴾ۚ

۱۱۷۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا پھینک دیں، چنانچہ اس نے یکایک ان کے خود ساختہ جادو کو نگلنا شروع کیا۔

فَوَقَعَ الۡحَقُّ وَ بَطَلَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۱۸﴾ۚ

۱۱۸۔ اس طرح حق ثابت ہوا اور ان لوگوں کا کیا دھرا باطل ہو کر رہ گیا۔

فَغُلِبُوۡا ہُنَالِکَ وَ انۡقَلَبُوۡا صٰغِرِیۡنَ﴿۱۱۹﴾ۚ

۱۱۹۔ پس وہ وہاں شکست کھا گئے اور ذلیل ہو کر لوٹ گئے۔

تشریح کلمات

تَلۡقَفُ:

( ل ق ف ) لَقِف کے معنی کسی چیز کو ہوشیاری سے لینے کے ہیں اور یہ منہ اور ہاتھ دونوں سے لینے پر بولا جاتا ہے۔

یَاۡفِکُوۡنَ: ( ا ف ک ) اَلْاِفْک ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیر دی گئی ہو۔ اسی بنا پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مُوْتَفِکَۃٌ کہا جاتا ہے۔ جھوٹ اور بہتان بھی اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوا ہوتا ہے، اس لیے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاِذَا ہِیَ تَلۡقَفُ مَا یَاۡفِکُوۡنَ: بعض مفسرین یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ عصائے موسیٰ ان رسیوں اور ان لاٹھیوں کو نگل گیا ہو بلکہ تَلۡقَفُ کا مطلب یہ ہے: عصا نے ان کے جادو کے باطل ہونے کو ظاہر کیا، ان کے جادو نے اگر نگاہوں کو مسحور کیا ہے تو تَلْقِیْف کا مطلب یہ ہو گا: اس کو عصا نے ختم کیا، رسیوں اور لاٹھیوں کو اپنی اصلی حالت میں دکھا دیا یا اس جادو کے پیچھے جو خفیہ عوامل تھے، ان کا انکشاف کیا، جس سے ان کے سحر کا راز کھل گیا اور بے اثر ہو گیا۔ (تفسیر المنار ۹: ۶۸۔ تفہیم القرآن۲: ۶۹)

فرعونیوں کو جادو اورمعجزے کا فرق معلوم تھا۔ اسی لیے حضرت موسیٰ (ع) کے معجزے کو جادو کہ کر رد کیا۔ لہٰذا عصائے موسیٰ (ع) نے صرف جادو کا اثر ختم کر کے ہر لاٹھی اور ہر رسی کو رسی نہیں دکھایا بلکہ عصائے موسیٰ (ع) نے ان جادوؤں کے ساتھ ایسا عمل کیا کہ اس عمل کو دیکھ کر لوگوں کو علم ہوا کہ عصائے موسیٰ (ع) کا عمل جادو نہیں، حقیقت پر مبنی ایک معجزہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ طاقت کے غرور میں آنے والوں کا انجام، شکست اور ذلت و خواری ہے: وَ انۡقَلَبُوۡا صٰغِرِیۡنَ ۔


آیات 117 - 119