آیات 113 - 116
 

وَ جَآءَ السَّحَرَۃُ فِرۡعَوۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ لَنَا لَاَجۡرًا اِنۡ کُنَّا نَحۡنُ الۡغٰلِبِیۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ اور جادوگر فرعون کے پاس آئے (اور) کہنے لگے:اگر ہم غالب رہے تو ہمیں صلہ ملے گا؟

قَالَ نَعَمۡ وَ اِنَّکُمۡ لَمِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔فرعون نے کہا:ہاں یقینا تم مقرب بارگاہ ہو جاؤ گے۔

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلۡقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ نَّکُوۡنَ نَحۡنُ الۡمُلۡقِیۡنَ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔انہوں نے کہا: اے موسیٰ! پہلے تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں ؟

قَالَ اَلۡقُوۡا ۚ فَلَمَّاۤ اَلۡقَوۡا سَحَرُوۡۤا اَعۡیُنَ النَّاسِ وَ اسۡتَرۡہَبُوۡہُمۡ وَ جَآءُوۡ بِسِحۡرٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔موسیٰ نے کہا: تم پھینکو، پس جب انہوں نے پھینکا تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور اور انہیں خوفزدہ کر دیا اور انہوں نے بہت بڑا جادو پیش کیا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ جَآءَ السَّحَرَۃُ: ہر طاغوتی طاقت کے لیے ایسے درباریوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کے ساتھ وہ سودا کرتے ہیں کہ وہ طاغوتی طاقت کو دین و مذہب کا لبادہ پہنا دیں اور طاغوت ان کو مقرب درگاہ بنا دے۔

۲۔ قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلۡقِیَ: جادوگروں کی طرف حضرت موسیٰ (ع) کو پہل کرنے نہ کرنے کا اختیار دینا بتاتا ہے کہ وہ اپنی جادوگری پر بھرپور بھروسا رکھتے تھے۔ ان کاچیلنج بتاتا ہے کہ ان کو اپنی فتح پر یقین تھا۔

۳۔ قَالَ اَلۡقُوۡا: دوسری طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جواب بتاتا ہے کہ آپؑ ان کے اس چیلنج کو کوئی اہمیت دینے کے لیے حاضر نہیں ہیں اور نہایت بے اعتنائی سے فرمایا: تم پہل کرو تاکہ باطل اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے، اپنی پوری طاقت صرف کریں اور حضرت موسیٰ (ع) کو ان کے جادو کے باطل ہونے کو ثابت کرنے کا موقع ملے۔ جب باطل اپنے تیر چلا چکے اور ترکش خالی کر دے تو اس فریب کے مقابلے میں حق بہتر طریقے پر اپنی حقانیت کو نمایاں کر سکتا ہے۔

۴۔ وَ جَآءُوۡ بِسِحۡرٍ عَظِیۡمٍ: فرعون کے جادوگروں نے جادو کا عظیم مظاہرہ کیا۔ اس جادوگری کا اہتمام اس قدر وسیع تھا کہ قرآن اس کو عظیم کہتا ہے اور قرآن کے مطابق یہ جادو مؤثر بھی تھا کہ دلوں پر خوف طاری ہوا ۔ سورۂ طہ آیات ۶۶۔ ۶۷ میں فرماتا ہے:

قَالَ بَلۡ اَلۡقُوۡا ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمۡ وَ عِصِیُّہُمۡ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا تَسۡعٰی فَاَوۡجَسَ فِیۡ نَفۡسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی

اتنے میں ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو دوڑتی محسوس ہوئیں، پس موسیٰ نے اپنے اند ر خوف محسوس کیا۔

البتہ حدیث معصوم میں آیاہے کہ حضرت موسیٰ (ع) کو لوگوں کے گمراہ ہونے کا خوف لاحق ہو گیا تھا نہ کہ خود جادو سے خوفزدہ ہوگئے تھے۔

اہم نکات

۱۔ ہر باطل طاقت کو درباری وظیفہ خواروں کی ضرورت ہوتی ہے: اِنَّکُمۡ لَمِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ۔۔


آیات 113 - 116