آیت 73
 

وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ یَوۡمَ یَقُوۡلُ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ۬ؕ قَوۡلُہُ الۡحَقُّ ؕ وَ لَہُ الۡمُلۡکُ یَوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ ؕ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ؕ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ﴿۷۳﴾

۷۳۔ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا اور جس دن وہ کہے گا ہو جا! تو ہو جائے گا،اس کا قول حق پر مبنی ہے اور اس دن بادشاہی اسی کی ہو گی جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی، وہ پوشیدہ اور ظاہری باتوں کا جاننے والا ہے اور وہی باحکمت خوب باخبر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ ہُوَ الَّذِیۡ: اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ یہاں عبث اور لایعنی کا تصور نہیں ہے کہ ان چیزوں کو بے مقصد محض ایک کھلونے کے طور پر پیدا کیا ہو:

وَ مَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا لٰعِبِیۡنَ (۲۱ انبیاء :۱۶)

اور ہم نے اس آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے، کو بیہودہ خلق نہیں کیا۔

دوسری آیت میں بیان فرماتا ہے:

اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ (۲۳ مومنون:۱۱۵)

کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے؟

۲۔ وَ یَوۡمَ یَقُوۡلُ کُنۡ فَیَکُوۡنُ: یہ قیامت کے دن کے وقوع کے سلسلے میں ہے کہ اللہ کی طرف سے حکم ملتے ہی قیامت واقع ہو گی۔

۳۔ وَ لَہُ الۡمُلۡکُ: قیامت کے دن اسی کی بادشاہی ہو گی۔ دنیا میں تو ازروئے آزمائش و امتحان لوگوں کو ڈھیل دے رکھی ہے لیکن قیامت کے روز حساب لینا ہے۔ وہاں صرف اور صرف اللہ کا حکم چلے گا۔

۴۔ یَوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ: صور پھونکنے کا واقعہ دو بار ہو گا۔ ایک صور سے سب مر جائیں گے اور دوسرے سے سب زندہ ہو جائیں گے۔

۵۔ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ: وہ تمام اشیاء کے باطن کو بھی جانتا ہے اور ظاہر کو بھی۔ اس کائنات میں کوئی ذرہ ایسا نہیں جو اللہ کے علم سے پوشیدہ ہو۔

۶۔ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ: کائنات کی کوئی شی ٔ، کوئی قانون ،حکمت سے خالی نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کو اپنی علمی پیشرفت سے یہ تو معلوم ہو رہا ہے کہ اس کائنات کا کوئی ذرہ بے مقصد نہیں ہے، تو کیا کُل کائنا ت کے بارے میں سوچنا نہیں چاہیے کہ یہ کس لیے پیدا ہوئی ہے؟


آیت 73