آیات 71 - 72
 

قُلۡ اَنَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤی اَعۡقَابِنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ کَالَّذِی اسۡتَہۡوَتۡہُ الشَّیٰطِیۡنُ فِی الۡاَرۡضِ حَیۡرَانَ ۪ لَہٗۤ اَصۡحٰبٌ یَّدۡعُوۡنَہٗۤ اِلَی الۡہُدَی ائۡتِنَا ؕ قُلۡ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الۡہُدٰی ؕ وَ اُمِرۡنَا لِنُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۷۱﴾

۷۱۔ کہدیجئے: کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکاریں جو نہ ہمارا بھلا کر سکتے ہیں اور نہ برا؟ اور کیا اللہ کی طرف سے ہدایت ملنے کے بعد ہم اس شخص کی طرح الٹے پاؤں پھر جائیں جسے شیاطین نے بیابانوں میں راستہ بھلا دیا ہو اور وہ سرگرداں ہو؟ جب کہ اس کے ساتھی اسے بلا رہے ہوں کہ سیدھے راستے کی طرف ہمارے پاس چلا آ، کہدیجئے: ہدایت تو صرف اللہ کی ہدایت ہے اور ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم رب العالمین کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔

وَ اَنۡ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّقُوۡہُ ؕ وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ﴿۷۲﴾

۷۲۔ اور یہ کہ نماز قائم کرو اور تقوائے الٰہی اختیار کرو اور وہی تو ہے جس کی بارگاہ میں تم جمع کیے جاؤ گے۔

تشریح کلمات

استھوی:

( ہ و ی ) اوپر سے نیچے گرنے کو کہتے ہیں۔ راہ راست سے پھسلنے کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ اَنَدۡعُوۡا: کہدیجیے: کیا ہم اس چیز کی عبادت کریں، جس کی عبادت میں کوئی فائدہ ہے نہ عبادت نہ کرنے میں کوئی ضرر ہے۔

۲۔ وَ نُرَدُّ: اس صورت میں ہم مقصد زندگی کے حصول میں ناکام و نامراد ہو جائیں گے۔ اس شخص کی طرح ہو جائیں گے جسے شیاطین گمراہ کر دیں۔

۳۔ لَہٗۤ اَصۡحٰبٌ: شیاطین جہاں اس کو گمراہی کی طرف بلاتے ہیں، ایسے ساتھی بھی ہوتے ہیں جو اس کو راہ راست کی طرف بلاتے ہیں ۔ یہ شخص حق اور باطل کی طرف بلانے والوں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے لیکن یہ باطل کی طرف جاتا ہے۔

۴۔ قُلۡ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الۡہُدٰی: ہدایت وہی ہے جو اللہ کی طرف سے ہو۔ فطرت و جبلت کی ہدایت، ملائکہ کی ہدایت، انبیاء کی ہدایت۔ یہ سب ہدایات اللہ کی طرف سے ہیں۔ جو ہدایت اس تسلسل میں نہ آئے، وہ ضلالت ہے۔

۵۔ وَ اُمِرۡنَا لِنُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ: کہدیجیے: ہمیں حکم ملا ہے کہ رب العالمین کے احکام کی تعمیل کریں۔ جب وہ ذات، عالمین کا رب ہے اور تمام عالمین اس کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں تو ایک انسان کیوں اس کائناتی نظام سے سرکشی کرے؟ البتہ انسان کو حکم شرعی ملا ہے، باقی کائنات کو حکم تکوینی۔ باقی کائنات اس حکم سے سرکشی نہیں کر سکتی، البتہ انسان سرکشی کر سکتا ہے۔

۶۔ وَ اَنۡ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّقُوۡہُ: اور یہ حکم بھی ملا ہے کہ نماز قائم کریں اور اللہ کی مخالفت سے بچیں۔

۷۔ وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ: عدل الٰہی سے بچنے کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ اس انسان کو اللہ کی عدالت گاہ میں پیش ہونا ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان فطرتاً اس ذات کو پکارتا ہے، جس کے ہاتھ میں اس کا نفع و نقصان ہو۔ مؤمن کو یقین ہے کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کسی کے پاس بھلائی یا برائی کا اختیار نہیں ہے۔ لہٰذا وہ مؤمن کبھی بھی اس شخص کی مانند نہیں ہو سکتا جو ہادی کی موجودگی کے باجود بیابانوں میں حیران و سرگرداں پھرتا رہے۔

۲۔ کوئی عاقل، صحیح راستہ دکھانے والے کے ہونے کے باوجود سرگرداں نہیں پھرتا۔


آیات 71 - 72