آیت 53
 

وَ کَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لِّیَقُوۡلُوۡۤا اَہٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِنَا ؕ اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِاَعۡلَمَ بِالشّٰکِرِیۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور اس طرح ہم نے ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے (یوں) آزمائش میں ڈالا کہ وہ یہ کہدیں کہ کیا ہم میں سے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے فضل و کرم کیا ہے؟ (کہدیجئے) کیا اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو بہتر نہیں جانتا؟

تفسیر آیات

ابتدائے اسلام میں چند ایک غریب اور مفلوک الحال افراد نے ہی اسلام قبول کیا تھا اور قریش کے رؤساء اور امیر لوگ اسلام کے سخت ترین دشمن تھے۔ وہ از روئے طنز و تمسخر کہتے ہیں کہ کیا اللہ نے ہم میں

سے صہیب،عمار، بلال، خباب جیسوں کو اپنے فضل و کرم کے لیے انتخاب کیا ہے؟ جن کے جسم سے بدبو آتی ہے۔ ہم اسلام قبول کر بھی لیں تو کیا ان کی مجلس و محفل میں ہم ساتھ بیٹھ جائیں؟ اس آیت میں جواب دیا جا رہا ہے کہ یہی اصل آزمائش ہے کہ کون انسانی، روحانی، الٰہی اور اخلاقی اقدار کو مانتا ہے اور کون مادی اور نفسانی خواہشوں کی قدروں کو مانتا ہے۔ یہ اقدار کا امتحان ہے۔ ہم آج بھی بہت سے لوگوں کو اس امتحان میں ناکام دیکھتے ہیں۔ لوگوں کی قیمت لگاتے ہوئے مادی قدروں کو سامنے رکھتے ہیں اور دیگر انسانی اور اخلاقی قدروں کو اعتنا میں نہیں لاتے۔

اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِاَعۡلَمَ بِالشّٰکِرِیۡنَ: شاکرین کے مقام پر وہ قلیل جماعت قائم ہے جو ہمیشہ حق پر قائم رہتی ہے۔ ملاحظہ ہو آل عمران آیت ۱۴۴۔

اہم نکات

۱۔ یہ آیت عمار، صہیب اور خباب کے بارے میں نازل ہوئی۔ (مجمع البیان۴: ۴۷۳۔ النزول وتفسیر طبری ۷: ۱۲۷)

۲۔ جو شخص مالدار کا اس کی دولت کی خاطر احترام کرے تو اس کے دین کے دو حصے ختم ہو جاتے ہیں۔ (حضرت علی علیہ السلام)

۳۔ اسلام انسانی، اخلاقی اور روحانی قدروں کا مذہب ہے۔ اقدار والا انسان شاکر ہوتا ہے۔


آیت 53