آیت 52
 

وَ لَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ؕ مَا عَلَیۡکَ مِنۡ حِسَابِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ وَّ مَا مِنۡ حِسَابِکَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَتَطۡرُدَہُمۡ فَتَکُوۡنَ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔اور جو لوگ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ کریں، نہ آپ پر ان کا کوئی بار حساب ہے اور نہ ہی ان پر آپ کا کوئی بار حساب ہے کہ آپ انہیں (اپنے سے) دور کر دیں پس (اگر ایسا کیا تو) آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔

تفسیر آیات

ابن مسعود راوی ہیں کہ قریش کی ایک جماعت کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزر ہوا۔ آپؐ کے پاس صہیب، عمار، بلال، خباب اور اس قسم کے دیگر لوگ بیٹھے تھے، تو انہوں نے کہا: اے محمدؐ ! کیا آپؐ اپنی قوم کی جگہ ایسے لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔ کیا اللہ نے ہم کو چھوڑ کر ان لوگوں پر احسان کیا ہے تو کیا ہم ان لوگوں کے تابع ہو جائیں؟ ان کو اپنے سے دور کریں۔ اگر آپؐ ایسا کریں تو شاید ہم آپؐ کے تابع ہو جائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض اصحاب نے اس جگہ رسول اللہؐ کی خدمت میں اپنا اجتہاد پیش کیا: لو فعلت لک اگر آپؐ اس تجویز پر عمل کر کے دیکھ لیتے؟ لکھتے ہیں : اس آیت کے نزول کے بعد انہوں نے معذرت کی۔ (ملاحظہ ہو تفسیر الجواہر ۴: ۲ ۔مجمع البیان ۴: ۴۷۳۔ النزول وتفسیر ابن کثیر ۳: ۲۳۲۔ تفسیر ثعلبی ۴: ۱۵۰، الانعام آیت ۴۹)

جب کہ قوم نوح نے بھی یہی طنز کیا تھا:

مَا نَرٰىکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیۡنَ ہُمۡ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاۡیِ ۔۔۔۔۔ (۱۱ ہود: ۲۷)

اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہم میں سے ادنیٰ درجے کے لوگ سطحی سوچ سے تمہاری پیروی کر رہے ہیں۔

اس پر حضرت نوح (ع) کا مؤقف بھی قرآن بیان فرماتا: وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔ (۲۶ شعراء : ۱۱۴) میں مؤمنوں کو اپنے سے دور کرنے والا نہیں ہوں۔

جن اصحاب کو اپنے سے دور نہ کرنے کا حکم آیا، وہ مفلوک الحال ضرور تھے، مگر اللہ نے ان کے یہ اوصاف بیان کیے ہیں:

یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ: یہ لوگ اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں۔اس سے دعا یا نماز مراد ہو سکتی ہے۔

یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ: وہ اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں، جو بہت بڑی فضیلت ہے، چونکہ اس سے ان کا اخلاص در عمل ثابت ہوتا ہے۔ وجھہ میں سے مراد ذات خدا ہے۔ لفظ وجہ ذات کے لیے قرآن میں بہت جگہ ذکر ہوا ہے۔

مَا عَلَیۡکَ مِنۡ حِسَابِہِمۡ: آپؐ کے گرد و پیش میں جو لوگ موجود ہوتے ہیں، وہ اگر اپنے اعمال میں مخلص ہیں تو اور اگر ان کا باطن پاکیزہ نہیں ہے تو دونوں صورتوں میں ان کے اعمال کا حساب خود ان کو دینا ہے۔ آپؐ ان کو کس بنیاد پر اپنے سے دور کریں گے۔

فَتَطۡرُدَہُمۡ: اس کے باوجود اگر ان کو اپنے دور کریں گے تو یہ زیادتی ہو گی۔

مسئلہ کی اہمیت کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب فرمایا: اگر ایک مؤمن کو مادی قدروں کی بنیاد پر کہ وہ غریب ہے، اپنے سے دور کر دیں تو آپؐ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔ اس طرح اسلام قدروں کا انقلاب لے کر آیا کہ قریش کے مقتدر افراد اور سرداروں پر ایسے اشخاص کو ترجیح مل رہی ہے، جو مادی اعتبار سے نہایت مفلوک الحال ہیں۔ ان کے جسموں سے بو آتی ہے۔ تن پر کپڑے بھی قاعدے کے نہیں ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اس قسم کی مادی قدروں اور روحانی وانسانی قدروں کی جنگ تمام انبیاء نے لڑی ہے۔

۲۔ اسلام طبقاتی امتیاز مٹانے کے لیے آیا ہے۔


آیت 52