آیات 54 - 55
 

وَ اِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۙ اَنَّہٗ مَنۡ عَمِلَ مِنۡکُمۡ سُوۡٓءًۢا بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَ اَصۡلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۵۴﴾

۵۴۔اور جب آپ کے پاس ہماری آیات پر ایمان لانے والے لوگ آجائیں تو ان سے کہیے: سلام علیکم تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے کہ تم میں سے جو نادانی سے کوئی گناہ کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تو وہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

وَ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ وَ لِتَسۡتَبِیۡنَ سَبِیۡلُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿٪۵۵﴾

۵۵۔ اور اسی طرح آیات کو ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ مجرموں کا راستہ نمایاں ہو جائے۔

تفسیر آیات

جاہلیت کی اقدار کے مطابق جن افراد کے ساتھ بیٹھنے میں عار محسوس کیا جاتا تھا، انہی افراد کو اسلامی قدروں کے مطابق یہ مقام ملتا ہے کہ اللہ کے رسولؐ کو یہ حکم ملتا ہے کہ جب یہ لوگ آپؐ کے پاس آ جائیں، انہیں سلام علیکم کہیں، ان پر سلام کریں، انہیں انسانی حقوق اور احترام آدمیت سے نوازیں۔ رسول رحمتؐ کو یہ حکم ملتا ہے ان کو عزت و اکرام دیں۔۔

کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ: تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔ (اس جملے کی تشریح کے لیے ملاحظہ فرمائیں انعام: ۱۲) اس رحمت کی ایک صورت اگلے جملے میں بیان فرمائی ہے:

ابِجَہَالَۃٍ: اگر زمان جاہلیت میں نہ جاننے کی وجہ سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے تو اللہ اسے معاف کر دے گا۔ آیت کا اطلاق ان تمام گناہوں کو شامل کرتا ہے جو انسان سے از روئے غفلت سرزد ہو جاتے ہیں، پھر توبہ کرتے ہیں۔ بِجَــہَالَۃٍ کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ النساء آیت ۱۷۔

وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا (۴ نساء : ۱۱۰)

اور جو برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو وہ اللہ کو درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا پائے گا۔

لِتَسۡتَبِیۡنَ سَبِیۡلُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ: قرآن میں ہدایت پانے والوں اور گمراہ ہونے والوں کے لیے بیان حق و باطل میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس آیت میں فرمایا کہ ہم آیات کو مفصل طور پر بیان کرتے ہیں تاکہ مجرموں کا راستہ، باطل ہونے کی حیثیت نمایاں ہو جائے۔

اہم نکات

۱۔ رسول اسلامؐ پر واجب ہے کہ مؤمنین کو احترام آدمیت سے نوازیں۔

۲۔ رحیم ذات کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر رحمت عام کرے۔


آیات 54 - 55