آیت 50
 

قُلۡ لَّاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ اِنِّیۡ مَلَکٌ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ؕ قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ؕ اَفَلَا تَتَفَکَّرُوۡنَ﴿٪۵۰﴾

۵۰۔کہدیجئے: میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس حکم کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی ہوتی ہے، کہدیجئے: کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں؟کیا تم غور نہیں کرتے؟

تفسیر آیات

۱۔ خَزَآئِنُ اللّٰہِ خزانہ الٰہی سے ممکن ہے وہ منبع فیض مراد ہو جس سے تمام موجودات اپنے وجود سمیت بے شمار نعمتوں سے مستفیض ہو رہی ہیں۔ اسی کو خزائن رحمت سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی مصدر فیض سے پوری کائنات وجود میں آئی ہے: وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۔۔۔۔ (۱۳ منافقون: ۷) آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے۔ اللہ کے اس خزانہ کی کلید گویا کلمہ کُن ہے، جس سے اشیاء کو وجود کا فیض ملتا ہے اور دیگر نعمتوں کا بھی سرچشمہ یہی خزانہ ہے۔

لہٰذا جس کے پاس یہ خزانہ ہو گا، وہ کائنات میں جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے۔ اس تصرف کے لیے کوئی حدبندی نہیں ہو گی

مشرکین کا یہ خیال تھا کہ اگر اللہ کی طرف سے کوئی رسول آتا ہے تو اسے انسانوں کی طرح بھوک، پیاس سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ اسے بیوی بچوں کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ رسول ایسا ہونا چاہیے کہ وہ جب حکم دے تو پہاڑ سونے کا بن جائے۔ اس کے ایک اشارے سے دنیا کی ساری نعمتیں سمٹ کر اس کے سامنے آ جائیں۔ یہ کیسا رسول ہوا کہ اس کو اپنی ضرورتوں کے لیے لوگوں سے قرض لینے تک کی نوبت آ جائے:

وَ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفۡجُرَ لَنَا مِنَ الۡاَرۡضِ یَنۡۢبُوۡعًا اَوۡ تَکُوۡنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الۡاَنۡہٰرَ خِلٰلَہَا تَفۡجِیۡرًا اَوۡ تُسۡقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمۡتَ عَلَیۡنَا کِسَفًا اَوۡ تَاۡتِیَ بِاللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیۡلًا اَوۡ یَکُوۡنَ لَکَ بَیۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ اَوۡ تَرۡقٰی فِی السَّمَآءِ ۔۔۔۔۔۔(۱۷ الاسراء:۹۰ تا ۹۳)

اور کہنے لگے: ہم آپ پر ایمان نہیں لاتے جب تک آپ ہمارے لیے زمین کو شگافتہ کر کے ایک چشمہ جاری نہ کریں یا آپ کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایسا باغ ہو جس کے درمیان آپ نہریں جاری کریں یا آپ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں جیساکہ خود آپ کا زعم ہے یا خود اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئیں یا آپ کے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں۔۔۔۔

اس قسم کی نامعقول باتوں کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔

۲۔ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔ علم غیب کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ علم غیب جو بغیر کسی وحی اور تعلیم کے بطور استقلال ذاتی طور پر جاننا ہے۔ یہ علم غیب، ذات الٰہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ دوسرا وہ علم غیب جو وحی اور تعلیم کے ذریعے کسی ذات میں آ جائے۔ اس قسم کا علم غیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے لیے بصریح قرآن ثابت ہے:

عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ ۔ (۷۲ جن: ۲۶)

وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا، سوائے اس رسول کے جسے اس نے برگزیدہ کیا ہو۔

چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:

ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ ۔۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۴۴)

یہ غیب کی خبریں ہم آپ کو وحی کے ذریعے بتا رہے ہیں۔۔۔۔

۳۔ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ اِنِّیۡ مَلَکٌ نہ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، مادی لوازم حیات سے بے نیاز ہوں۔ میں تو ہمیشہ یہی کہتا رہا ہوں کہ میں انسان ہوں۔ لہٰذا تم یہ نہیں کہہ سکتے:

مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ فِی الۡاَسۡوَاقِ ۔۔۔۔ (۲۵ فرقان: ۷)

یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔۔۔ ۔

۴۔ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ جو کچھ میرے پاس ہے، وہ وحی کے ذریعے ہے۔ بذات خود نہیں ہے۔

۵۔ ہَلۡ یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں؟ جس کو وحی سے بینائی ملی ہو، جس کی وجہ سے کل آفاق اس کے سامنے ہو، وہ تم جیسے اندھوں کی طرح ہو سکتا ہے، جنہیں اپنے سامنے کی چیز کا بھی علم نہیں ہوتا۔

۶۔ اَفَلَا تَتَفَکَّرُوۡنَ یہ نہیں سوچتے ہو کہ میں وحی کی روشنی میں بینا ہوں۔ نابیناؤں کو بیناؤں کی پیروی کرنا چاہیے۔

اہم نکات

۱۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کے علاوہ اپنے اجتہاد سے کوئی بات نہیں کرتے تھے: اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۔۔۔۔


آیت 50