آیت 51
 

وَ اَنۡذِرۡ بِہِ الَّذِیۡنَ یَخَافُوۡنَ اَنۡ یُّحۡشَرُوۡۤا اِلٰی رَبِّہِمۡ لَیۡسَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیۡعٌ لَّعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور آپ اس (قرآن) کے ذریعے ان لوگوں کو متنبہ کریں جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے سامنے ایسی حالت میں جمع کیے جائیں گے کہ اللہ کے سوا ان کا نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ شفاعت کنندہ، شاید وہ تقویٰ اختیار کریں۔

تفسیر آیات

قرآن عامۃ الناس کی ہدایت و انذار کے لیے ہے، کسی خاص گروہ کے ساتھ تخصیص نہیں ہے۔ تاہم اس قرآن سے استفادہ کرنے اور ہدایت لینے والے تو یہی خوف خدا دل میں رکھنے والے اہل تقویٰ ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے قرآن کو ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (۲ بقرۃ : ۲) تقویٰ والوں کے لیے ہدایت قرار دے دیا ہے کیونکہ قرآنی تعلیمات کا محور قیامت، سزا و جزا ہے۔

لَیۡسَ لَہُمۡ اس قرآن سے فائدہ وہ اٹھائیں گے، جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں: صرف اللہ کارساز اور شفیع ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

قُلۡ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا ۔ (۳۹ زمر: ۴۴)

کہدیجیے: ساری شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے۔

آگے وہ جسے شفاعت کا حق دے ، وہ شفاعت کر سکتا ہے:

مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ ۔۔۔۔ (۱۰ یونس: ۳)

اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآنی دعوت عام ہے لیکن اس کے اہل خاص لوگ ہیں۔

۲۔ خوف محشر، کردار ساز ہے۔


آیت 51