آیت 104
 

وَ لَا تَہِنُوۡا فِی ابۡتِغَآءِ الۡقَوۡمِ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا تَاۡلَمُوۡنَ فَاِنَّہُمۡ یَاۡلَمُوۡنَ کَمَا تَاۡلَمُوۡنَ ۚ وَ تَرۡجُوۡنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرۡجُوۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۱۰۴﴾٪

۱۰۴۔ اور تم ان کافروں کے تعاقب میں تساہل سے کام نہ لینا اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی ایسی ہی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمہیں تکلیف پہنچتی ہے اور اللہ سے جیسی امید تم رکھتے ہو ویسی امید وہ نہیں رکھتے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔

تشریح کلمات

تَہِنُوۡا:

( و ھ ن ) الوھن ۔ کمزوری۔

ابۡتِغَآءِ:

( ب غ ی ) طلب اور تعاقب کرنا۔

تفسیر آیات

عسکری اعتبار سے دشمن کے مقابلے میں کمزوری دکھانا جرم ہے۔ قرآن لشکر اسلام کو دستور جنگ دیتے ہوئے جنگ میں استقامت اور پامردی دکھانے کے لیے روحانی اور نفسیاتی محرک پیدا کرتا ہے۔ اگر کافر استقامت دکھاتے ہیں تو مسلمانوں کو زیادہ استقامت دکھانی چاہیے۔ اس کی دو وجوہات بیان کی ہیں:

i۔ جنگ سے اگر تمہیں تکلیف پہنچ رہی ہے تو اس بات میں تم اکیلے نہیں ہو، تمہارے دشمن کو بھی تکلیف پہنچ رہی ہے، اس کے باوجود وہ تم سے لڑنے پر اڑے ہوئے ہیں۔

ii۔ اللہ سے جو امیدیں تمہیں وابستہ ہیں، وہ انہیں نہیں ہیں۔ کیونکہ مسلمان جنگ میں یا فاتح ہوتا ہے یا شہید، دونوں صورتوں میں دنیا و آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہوتا ہے، جبکہ کفار کی استقامت کے پیچھے یہ عوامل موجود نہیں ہیں۔

اہم نکات

۱۔ مجاہد کی لغت میں ناکامی کا تصور نہیں ہے۔ یہاں فتح یا شہادت میں سے ایک کامیابی ضرور ملتی ہے۔


آیت 104