آیات 105 - 106
 

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِتَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ ؕ وَ لَا تَکُنۡ لِّلۡخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا﴿۱۰۵﴾ۙ

۱۰۵۔(اے رسول)ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں اور خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں۔

وَّ اسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۰۶﴾ۚ

۱۰۶۔اور اللہ سے طلب مغفرت کریں یقینا اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

شان نزول: یہ اور بعد میں آنے والی چند آیات ایک خاص واقعے سے متعلق ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے:

انصار کے ایک خاندان بنی ابیرق کے تین بھائیوں بشیر، بشر اور مبشر نے قتادہ بن نعمان کے چچا کے گھر نقب لگا کر چوری کی اور کچھ کھانے کی اشیاء، ایک تلوار اور ایک زرہ لے گئے۔ حضرت قتادہ نے، جو بدر کے مجاہد تھے، رسول خدا (ص) کی خدمت میں شکایت کی تو ان تینوں بھائیوں نے لبید نامی ایک ایماندار شخص کومتہم کیا کہ چوری اس نے کی ہے۔ جس پر لبید برہم ہوئے اور تلواراٹھائی اور ان لوگوں کے پاس آ کر کہا: مجھ پر چوری کا الزام عائد کرتے ہو، جب کہ تم خود ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہو۔ تم وہی منافق لوگ ہو جو رسول اللہ (ص) کی ہجو کیا کرتے تھے اور قریش کی طرف نسبت دیتے تھے۔ تم نے مجھ پرجو الزام لگایا ہے، اسے ثابت کرو، ورنہ تلوار کو میں تمہارے خون سے سیراب کر دوں گا۔ یہ دیکھ کر ان لوگوں نے کہا کہ آپ واپس جائیں، آپ پر کوئی الزام نہیں لگاتے، آپ کی ذات اس قسم کے کام سے بری ہے۔ اس کے بعد ایک جماعت کو اپنے خاندان کے ایک با اثر شخص اسید بن عروہ کے ساتھ رسول اللہ (ص) کی خدمت میں روانہ کیا۔ چنانچہ اسید نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) قتادہ نے ہمارے قبیلے کے ایک شریف حسب و نسب خاندان پر چوری کا الزام لگایا ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ (ص) نے اظہار افسوس کیا اور قتادہ کی سخت سرزنش کی، جس سے قتادہ کو سخت صدمہ ہوا تو یہ آیات نازل ہوئیں، جس سے قتادہ کی بے گناہی اور دوسرے لوگوں کی چوری ثابت ہو گئی۔ (بحار الانوار ۲۲:۲۲)

دوسری روایت میں آیا ہے کہ بنی ابیرق نے چوری کا الزام ایک یہودی پر لگایا اور چوری کیا ہوا اسلحہ اور زرہ اسی یہودی کے پاس رکھوا دی اور تحقیق کے وقت اسی کے گھر سے برآمد ہوئی۔ چنانچہ ظاہری علائم کے تحت یہ تأثر قائم ہو رہا تھا کہ چوری یہودی نے کی تھی اور بنی ابیرق کے برادران بے گناہ تھے۔ چنانچہ یہ آیات نازل ہوئیں اور بنی ابیرق کے لوگ جو مسلمان تھے، مجرم ثابت ہوئے اور یہودی کو بری کر دیا۔

ان دونوں روایات میں اختلاف اس طرح ختم ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ بنی ابیرق والوں نے پہلے الزام لبید پر لگایا ہو اور بعد میں یہودی پر۔

آیت نمبر ۱۰۶تا ۱۱۳، اسی واقعے سے مربوط ہیں اور اسی واقعے کی روشنی میں ان آیات کو سمجھنا چاہیے۔

یہاں حضور (ص) سے خطاب فرماتے ہوئے آیت کا لب و لہجہ سرزنش کا ہے۔ چنانچہ متعدد مقامات پر سیاق و سباق عبارت میں سرزنش ہوئی ہے۔ جب کہ اس آیت میں تو حضور (ص) کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ اس قسم کی تمام آیات کو سمجھنے کے لیے یہ نکتہ ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ ان آیات میں اگرچہ خطاب رسول (ص) سے ہے، لیکن مراد دوسرے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ ایسا اسلوب کلام ہے، جسے محاورے میں ایاک اعنی و اسمعی یا جارۃ (چنانچہ ائمہ علیہم السلام سے اسی طرح روایت میں آیا ہے۔ بحار الانوار ۳۲: ۱۸ ) ’’خطاب کسی سے اور مقصود کسی اور کو سنانا ہے‘‘ کہتے ہیں۔ اس اسلوب میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو تنبیہ کے ساتھ یہ عندیہ دینا مقصود ہوتا ہے کہ وہ اس قابل ہی نہیں کہ رخ سخن ان کی طرف کیا جائے۔ لہٰذا یہ استدلال درست نہ ہو گا کہ ایسے مسائل میں جن میں قرآن کریم کی کوئی نص صریح وارد نہ ہوئی ہو، آنحضرت (ص) کو اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا حق حاصل تھا۔ آپؐ کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے فرماتے، اگر اس میں کوئی غلطی ہو جاتی تو حق تعالیٰ اس پر آپ (ص) کو تنبیہ فرما کر آپ (ص) کے فیصلے کو صحیح کرا دیتے تھے۔ (معارف القرآن مفتی محمد شفیع ۲: ۵۴۲)

ہمارے نزدیک یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ چونکہ قرآنی صریح نص نہ ہونے کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کا انتظار فرماتے تھے۔

بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ: فیصلہ اسی طرح کرنا، جس طرح اللہ نے آپؐ کو بتایا ہے۔ اس جملے میں اجتہاد کی نفی ہے کہ رسولؐ کریم، اللہ کی دی ہوئی تعلیم سے فیصلہ کرتے ہیں، رائے سے نہیں۔

پہلے بھی ذکر ہوا کہ علامہ آمدی الاحکام فی الاصول الاحکام میں صراحت کے ساتھ کہتے ہیں: رسول (ص) سے اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے۔

ان آیات سے اسلام کی حقانیت اور اس کی تعلیمات کی روح سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر مسلمانوں کو ملامت کی کہ انہوں نے خاندانی تعصب کی بنا پر مجرموں کی حمایت کی اور ان چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی زور دے کر تاکید فرمائی کہ عدل و انصاف کی فراہمی میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ فریقین کا تعلق کس مذہب سے ہے۔ انصاف جیسا کہ ایک مسلمان کو مل سکتا ہے، ایک یہودی کو بھی ملنا چاہیے۔

اسلام کے نزدیک خاندان، قبیلے اور مذہب سے بھی بالاتر چیز عدل و انصاف ہے جو صرف انسانیت سے مربوط ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: وَ لَا تَکُنۡ لِّلۡخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا اور خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں۔ خیانت کار کی طرفداری نہ کرنے کے لیے یہ نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ وہ کس گروہ کا آدمی ہے۔


آیات 105 - 106