آیت 102
 

وَ اِذَا کُنۡتَ فِیۡہِمۡ فَاَقَمۡتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلۡتَقُمۡ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ مَّعَکَ وَ لۡیَاۡخُذُوۡۤا اَسۡلِحَتَہُمۡ ۟ فَاِذَا سَجَدُوۡا فَلۡیَکُوۡنُوۡا مِنۡ وَّرَآئِکُمۡ ۪ وَ لۡتَاۡتِ طَآئِفَۃٌ اُخۡرٰی لَمۡ یُصَلُّوۡا فَلۡیُصَلُّوۡا مَعَکَ وَ لۡیَاۡخُذُوۡا حِذۡرَہُمۡ وَ اَسۡلِحَتَہُمۡ ۚ وَدَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ تَغۡفُلُوۡنَ عَنۡ اَسۡلِحَتِکُمۡ وَ اَمۡتِعَتِکُمۡ فَیَمِیۡلُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ مَّیۡلَۃً وَّاحِدَۃً ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ کَانَ بِکُمۡ اَذًی مِّنۡ مَّطَرٍ اَوۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَنۡ تَضَعُوۡۤا اَسۡلِحَتَکُمۡ ۚ وَ خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ اور (اے رسول) جب آپ خود ان کے درمیان موجود ہوں اور آپ خود ان کے لیے نماز قائم کریں تو ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ مسلح ہو کر نماز پڑھے پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو ان کو تمہارے پیچھے ہونا چاہیے اور دوسرا گروہ جس نے نماز نہیں پڑھی ان کی جگہ آئے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھے اور اپنے بچاؤ کا سامان اور اسلحہ لیے رہیں، کیونکہ کفار اس تاک میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو تم پر یکبارگی حملہ کر دیں اور اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف میں ہو یا تم بیمار ہو تو اسلحہ اتار رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، مگر اپنے بچاؤ کا سامان لیے رہو،بے شک اللہ نے تو کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔

تفسیر آیات

وَ اِذَا کُنۡتَ: یہ حکم رسول اللہ (ص) کی موجود گی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ قرآن نے متعدد مقامات پریہ اسلوب بیان اختیار کیا ہے کہ خطاب نبی سے اور حکم عام ہوتا ہے۔

نماز خوف کا طریقہ: لشکر کا ایک حصہ امام کی اقتداء میں ایک رکعت پڑھے اور امام جب دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو تو مقتدی انفرادی طور پر دوسری رکعت پڑھ کر نماز پوری کریں اور جنگ کا محاذ سنبھالیں اور امام دوسری رکعت کو اس قدر طول دے کہ لشکر کا دوسرا حصہ اپنی نماز کی پہلی رکعت امام کی دوسری رکعت کے ساتھ پڑھ سکے۔ امام دوسری رکعت کا سلام پھیر دے اور مقتدی اپنی دوسری رکعت بجا لائیں۔

یہی طریقہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے اور فقہ جعفری میں یہی طریقہ فقہاء میں زیادہ مشہور ہے۔ چنانچہ امام شافعی اور امام مالک نے بھی تھوڑ ے اختلاف کے ساتھ اسی طریقے کو اختیار کیا ہے۔

نماز خوف رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ اور غزوہ ذات الرقاع میں، حضرت علی علیہ السلام نے اپنی جنگوں میں اور حضرت امام حسین علیہ السلام نے عصر عاشور پڑھی ہے۔ (اعلام الوری ۲۴۵)

اس حکم سے اہل ایمان کو بخوبی اندازہ ہونا چاہیے کہ نماز کی کیا اہمیت ہے۔ ہر کام اور ہر عمل کو نماز کی خاطر چھوڑا جا سکتا ہے، لیکن نماز کسی بھی عمل کی خاطر نہیں چھوڑی جا سکتی۔ حدیث میں آیا ہے:

خَمْسُ صَلَواتٍ لا تُتْرَکُ عَلَی کُلِّ حَالٍ ۔ (الکافی ۳ :۲۸۷ باب الصلوۃ)

پانچ نمازیں کسی صورت میں بھی چھوڑی نہیں جا سکتیں۔

حتیٰ فقہ امامیہ میں صلوۃ الغریق مشہور و معروف ہے کہ حالت غرق میں نماز کس طرح پڑھی جائے۔ یعنی اگر نماز کا وقت نکل رہا ہو اور انسان حالت غرق میں ہو تو اس حالت میں بھی نماز پڑھنا ہے، خواہ دل کے ارادوں اور سر کے اشاروں سے ہی کیوں نہ ہو۔ (التہذیب ۳ :۱۷۵)


آیت 102