آیت 101
 

وَ اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَقۡصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوۃِ ٭ۖ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَنۡ یَّفۡتِنَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ اِنَّ الۡکٰفِرِیۡنَ کَانُوۡا لَکُمۡ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔اور جب تم زمین میں سفر کے لیے نکلو تو اگر تمہیں کافروں کے حملے کا خوف ہو تو تمہارے لیے نماز قصر پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، یہ کافر لوگ یقینا تمہارے صریح دشمن ہیں۔

تفسیر آیات

سفر اور خوف کی حالت میں نماز قصر پڑھنے کے بارے میں یہ ابتدائی حکم ہے، جس میں سفر میں نماز قصر پڑھنے کو خوف کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ بعد میں رسول اکرم (ص) نے سفر میں ہر حالت میں نماز قصر پڑھنے کا حکم دیا۔

فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ: سفر میں نماز قصر پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، کی تعبیر سے تشریعی مقام پر وجوب ثابت ہوتا ہے۔ جیساکہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کے بارے میں بھی یہی تعبیر اختیار کی گئی تھی۔ چونکہ ابتدا میں ممکن تھا کہ یہاں نماز کو کم کر کے پڑھنے میں لوگوں کو تردد پیش آئے۔

سفر میں نماز قصر پڑھنا رخصت نہیں، عزیمت ہے۔ یعنی صرف اجازت نہیں بلکہ واجب ہے۔ فقہ جعفری کے مطابق سفر میں پوری نماز پڑھی جائے تو کافی نہیں ہے۔ اسی طرح سفر میں روزہ بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ رمضان میں اگر سفر کیاجائے تو دوسرے دنوں ان روزوں کی قضا، ادا کرنا ہو گی۔

واضح رہے کہ سفر میں نماز اور روزوں کے قصر کی شرائط درج ذیل ہیں:

۱۔ سفر حرام نہ ہو۔

۲۔ مسافت پوری ہو۔

۳۔سفر میں ایک جگہ دس دن یا اس سے زیادہ قیام کرنے کا ارادہ نہ ہو۔

احادیث

روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے سفر میں نماز قصر پڑھنے کے بارے میں فرمایا:

تلک صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ ۔ (عوالی اللآلی ۲: ۶۱ )

یہ اللہ کا تحفہ ہے اسے قبول کرو۔

صحیح مسلم، سنن بیہقی، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور ابن جریر وغیرہ نے اسے نقل کیا ہے۔

روایت ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک سوال کے جواب میں اس آیت کی تلاوت فرمانے کے بعد فرمایا:

فَصَارَ التَّقْصِیْرُ فِی السَّفَرِ وَاجِبًا کَوُجُوبِ التَّمَامِ فِی الْحَضَرِ ۔ (الفقیہ ۱ ۴۳۴ باب الصلوۃ فی السفر )

اس آیت سے سفر میں نماز کا قصر پڑھنا اسی طرح واجب ہو گیا جس طرح غیر سفر میں پوری نماز پڑھنا واجب ہے۔

اس روایت میں یہ بھی سوال ہوا کہ اگر کوئی شخص سفر میں چار رکعت نماز پڑھ لے تو اسے دوبارہ نماز پڑھنا پڑے گی؟ آپ (ع) سے روایت ہے:

اِنْ کَانَ قَدْ قُرِئَتْ عَلَیْہِ آیَۃُ التَّقْصِیرُ وَ فُسِّرَتْ لَہٗ فَصَلَّی اَرْبَعًا اَعَادَ وَ اِنْ لَمْ یَکُنْ قُرِئَتْ عَلَیْہِ وَ لَمْ یَعْلَمْھَا فَلَا اِعَادَۃَ عَلَیْہِ ( من لا یحضرہ الفقیہ ۱:۴۳۴)

اگر اسے آیہ قصر پڑھ کر سنائی گئی اور اس کی تفسیر بھی بتائی گئی ہے پھر بھی اس نے چار رکعت پڑھی ہے تو دوبارہ پڑھے اور اگر اسے آیہ نہ سنائی گئی ہو اور اسے علم نہ ہو تو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ ان معدودے چند موارد میں سے ہے جہاں علم نہ ہونے کا عذر قابل قبول ہے۔

المبسوط باب القصر میں لکھا ہے۔ عبد اللہ بن عمر نے کہا:

صلوہ المسافر رکعتان من خالف السنۃ فقد کفر ۔

مسافر کی نماز دو رکعت ہے۔ جو سنت کی مخالفت کرے وہ کافر ہے۔


آیت 101