آیت 199
 

ثُمَّ اَفِیۡضُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسۡتَغۡفِرُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۹۹﴾

۱۹۹۔پھر جہاں سے لوگ روانہ ہوتے ہیں تم بھی روانہ ہو جاؤ اور اللہ سے معافی مانگو، یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

قریش کا یہ زعم عام ہو گیا تھا کہ وہ اولاد اسماعیل(ع) ہونے کی بنا پر اہل حرم ہیں اور ان کا مرتبہ دوسروں سے کہیں بلند ہے۔ وہ عام لوگوں کے ساتھ عرفات تک جانے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ چونکہ عرفات حدود حرم سے باہر ہے، لہٰذا وہ مزدلفہ سے واپس آ جاتے تھے، جب کہ دوسرے لوگ عرفات تک جاتے تھے۔ اس امتیازی گھمنڈ کو مٹانے کے لیے یہ حکم آیا کہ سب ایک ہی انداز میں حج کریں اور سب پر عرفات تک جانا ضروری ہے اور گزشتہ غلطیوں کے لیے استغفار کرناچاہیے۔

اہم نکات

۱۔ حج درس مساوات ہے۔

۲۔ اسلام کی فدا کار اورمعصوم ہستیوں، ان کی جدوجہد او ریادگار مقامات کے احترام کا عملی درس حج سے ملتا ہے۔


آیت 199