آیت 198
 

لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ فَاِذَاۤ اَفَضۡتُمۡ مِّنۡ عَرَفٰتٍ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ عِنۡدَ الۡمَشۡعَرِ الۡحَرَامِ ۪ وَ اذۡکُرُوۡہُ کَمَا ہَدٰىکُمۡ ۚ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیۡنَ﴿۱۹۸﴾

۱۹۸۔ تم پر کوئی مضائقہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو، پھر جب تم عرفات سے چلو تو مشعر الحرام (مزدلفہ) کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے، حالانکہ اس سے پہلے تم راہ گم کیے ہوئے تھے۔

تشریح کلمات

اَفَضۡتُمۡ:

( ف ی ض ) چلنا، روانہ ہونا، بہنا۔

عَرَفٰتٍ:

( ع ر ف ) اس مقام کا نام ہے جہاں نو (۹) ذی الحجہ کو حجاج ٹھہرتے ہیں۔ عَرَفات کی وجہ تسمیہ میں کئی احتمالات ہیں۔ اول یہ کہ حضرت ابراہیم (ع) کو یہاں اپنے خواب کی صداقت کی معرفت حاصل ہوئی۔ دوم یہ کہ جبرئیل نے اس مقدس مقام کا تعارف کرایا۔ سوم یہ کہ یہاں آکر انسان، اللہ کی جلالت و عظمت کی معرفت حاصل کرتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ایام جاہلیت میں عربوں نے حج کو ایک تاجرانہ عمل بنا رکھا تھا۔ وہ ان دنوں بڑے بڑے بازار لگاتے تھے۔ چنانچہ جب اللہ کا یہ فرمان نازل ہوا: فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی تو مسلمانوں کے ذہن میں اس خیال کا آنا قرین قیاس تھا کہ دنیاوی و مادی امور کے لیے جدوجہد کرنا اعمال حج کے منافی ہے۔ یہ خیال دور کرنے کے لیے ارشاد ہوا کہ اللہ کا فضل تلاش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور یہ حج کے منافی بھی نہیں ہے۔

اس اعتبار سے ایام حج میں کسب حلال کا عمل حج کے منافی نہیں بلکہ حج کی طرح روزی کمانا بھی عبادت ہے۔ واضح رہے کہ احادیث کے مطابق فضل سے مراد کسب حلال ہے۔

۲۔ عرفات سے روانہ ہونے کے حکم سے یہ بات از خود واضح ہو جاتی ہے کہ حج کا ایک اہم جزو عرفات میں ٹھہرنا ہے کیونکہ روانگی قیام کے بعد ہی متحقق ہوتی ہے۔

۳۔ مشعرالحرام کے پاس اللہ کو یاد کرنے کے حکم سے بھی مزدلفہ میں ٹھہرنے کا حکم واضح ہو جاتا ہے۔

تحقیق مزید: الکافی ۴ : ۴۶۷، ۸: ۱۴۴، التہذیب ۵ : ۴۵۶، الوسائل ۱۳: ۵۳


آیت 198