آیت 200
 

فَاِذَا قَضَیۡتُمۡ مَّنَاسِکَکُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ﴿۲۰۰﴾

۲۰۰۔پھر جب تم حج کے اعمال بجا لا چکو تو اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے آبا و اجداد کو یاد کیا کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ، پس لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے: ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں (سب کچھ) دے دے اور ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔

تشریح کلمات

خَلَاقٍ:

نصیب، حصہ۔

تفسیر آیات

۱۔ دور جاہلیت میں عرب اعمال حج سے فراغت کے بعد جلسے منعقد کرتے، ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرتے اور آباء و اجداد کے کارنامے بیان کرتے تھے۔ اس آیت میں جاہلانہ رسوم ختم کرکے اپنے آباء و اجداد کے ذکرکی طرح ذکر خدا کا حکم دیا گیا ہے۔

۲۔ ذکر خدا اور اللہ کی بارگاہ میں دعا کے آداب یہ نہیں کہ انسان اللہ سے صرف دنیا طلب کرے جو وقتی اور زائل ہونے والی چیز ہے۔ ایسی دعا سے دنیا تو شاید مل جائے، لیکن آخرت میں کچھ نہیں ملے گا۔ لہٰذا حج جیسی عظیم عبادت کے دوران اور اس کے بعد اللہ سے فقط دنیاوی آرزؤں کی تکمیل کے لیے نہیں بلکہ اپنی اخروی زندگی کے لیے بھی کچھ مانگنا چاہیے۔

اہم نکات

۱۔ حج سے حاصل شدہ معنویت کو برقرار رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔

۲۔ صرف دنیاوی آرزؤں کی تکمیل کی خواہش ابدی زندگی میں محرومیت کا باعث ہے۔

تحقیق مزید: الکافی ۴ :۵۱۶، الوسائل ۱۴ : ۲۷۲۔


آیت 200