وَ یَقُوۡلُوۡنَ طَاعَۃٌ ۫ فَاِذَا بَرَزُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ غَیۡرَ الَّذِیۡ تَقُوۡلُ ؕ وَ اللّٰہُ یَکۡتُبُ مَا یُبَیِّتُوۡنَ ۚ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور یہ لوگ (منہ پر تو) کہتے ہیں: اطاعت کے لیے حاضر (ہیں) لیکن جب آپ کے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ آپ کی باتوں کے خلاف رات کو مشورہ کرتا ہے، یہ لوگ راتوں کو جو مشورہ کرتے ہیں اللہ اسے لکھ رہا ہے۔ پس (اے رسول) آپ ان کی پرواہ نہ کریں اور اللہ پر بھروسا کریں اور کارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔

81۔ سلسلۂ کلام ضعیف الایمان افراد کے بارے میں جاری ہے۔ ان ضعیف الایمان لوگوں کے بارے میں ہمیشہ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ کا حکم ہے کہ ان کو فاش نہ کرو ان کو اپنی صفوں سے نہ نکالو۔ اس طرح کرنے سے اس امت کا شیرازہ بکھر جائے گا کیونکہ یہ امت ابھی اپنی تشکیل کے مراحل طے کر رہی ہے۔

تفسیر المنار کا بھی یہی مؤقف ہے کہ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ سے مراد منافقین نہیں ہیں کہ آیۂ جَاہِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ (9 :73) کے ذریعے اس آیت کو منسوخ سمجھا جائے۔

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا﴿۸۲﴾

۸۲۔ کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں بڑا اختلاف پاتے۔

وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ وَ لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ ؕ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ لَاتَّبَعۡتُمُ الشَّیۡطٰنَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۸۳﴾

۸۳۔ اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی خبر پہنچتی ہے تو وہ اسے خوب پھیلاتے ہیں اور اگر وہ اس خبر کو رسول اور اپنے میں سے صاحبان امر تک پہنچا دیتے تو ان میں سے اہل تحقیق اس خبر کی حقیقت کو جان لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند ایک افراد کے سوا باقی تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔

83۔ یہ آیت بھی اکثر حضرات کے نزدیک ضعیف الایمان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ تفسیر المنار نے یہی مؤقف اختیار کیا ہے۔

یہ لوگ اسلامی مرکز میں رونما ہونے والے عسکری اسرار و رموز سے مربوط ہر بات کو پھیلا دیتے تھے۔ جس سے بہت سے راز فاش ہو جاتے اور مسلمانوں کی صفوں میں اس افواہ سازی کے نتیجہ میں بد امنی پھیلتی تھی۔ اس آیت میں ان کے لیے حکم آیا کہ وہ اس قسم کی خبروں کے بارے میں مرکز کی طرف رجوع کیا کریں اور اس کے بارے میں مرکز سے ہدایات لے لیا کریں۔ چونکہ مرکز یعنی رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صاحبان امر اس خبر کے پس منظر اور حقائق سے آگاہ ہیں۔

فَقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفۡسَکَ وَ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّکُفَّ بَاۡسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ اَشَدُّ بَاۡسًا وَّ اَشَدُّ تَنۡکِیۡلًا﴿۸۴﴾

۸۴۔(اے رسول) راہ خدا میں قتال کیجیے، آپ پر صرف اپنی ذات کی ذمے داری ڈالی جاتی ہے اور آپ مومنین کو ترغیب دیں، عین ممکن ہے کہ اللہ کافروں کا زور روک دے اور اللہ بڑا طاقت والا اور سخت سزا دینے والا ہے ۔

مَنۡ یَّشۡفَعۡ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنۡ لَّہٗ نَصِیۡبٌ مِّنۡہَا ۚ وَ مَنۡ یَّشۡفَعۡ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنۡ لَّہٗ کِفۡلٌ مِّنۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ مُّقِیۡتًا﴿۸۵﴾

۸۵۔ جو شخص اچھی بات کی حمایت اور سفارش کرتا ہے وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی حمایت اور سفارش کرتا ہے وہ بھی اس میں سے کچھ حصہ پائے گا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

85۔ جب رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بنفس نفیس قتال کا حکم دے دیا تو اس کے بعد فرمایا کہ جو کارہائے خیر میں مدد دیتا ہے یا مدد کی سفارش کرتا ہے وہ بھی اس کار خیر میں حصے دار ہے۔ اسی طرح برائی میں مدد دینے والا بھی اس میں شریک اور حصے دار ہے۔ آیت کے عموم میں اچھی باتوں میں ہر قسم کی سفارش اور مدد کرنا اور بری باتوں میں ہر قسم کا حصہ لینا شامل ہے۔

وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡہَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا﴿۸۶﴾ ۞ؒ

۸۶۔ اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو یا انہی الفاظ سے جواب دو، اللہ یقینا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔

86۔تحیت و سلام کی رسم تو ہر قوم و ملت میں موجود ہے مگر ان میں تحیت و سلام کا مطلب یہ ہے کہ ادنیٰ انسان کسی بڑے کے سامنے اس کی بڑائی کا اظہار کرے۔ اسلام نے تحیت و سلام کے آداب میں اس قسم کی تفریق مٹا کر اسے امن و سلامتی، صلح و آشتی، مساوات و مؤاسات کا شعار قرار دیا ہے، چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام کرنے میں کوئی سبقت نہیں لے سکتا تھا۔ اسلام میں سلام کے آداب کچھ اس طرح ہیں کہ چھوٹے بڑوں کو، راہ گیر بیٹھے ہوئے لوگوں کو، سوار پیادوں کو، تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔

اس آیت میں سلام کے آداب بیان فرمائے گئے ہیں کہ سلام کا جواب بہتر طریقے سے دیں۔ مسلمانوں کو ایک مبلّغ اور داعی کی حیثیت سے اخلاق و شائستگی کا درس دیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی سلام کرے تو اس کا جواب اس سے بہتر طریقے سے دیا کرو۔ واضح رہے سلام کرنا مستحب اور جوابِ سلام واجب ہے۔ حدیث میں آیا ہے: السلام تطوع و الرد فریضۃ ۔

اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیۡثًا﴿٪۸۷﴾

۸۷۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تم سب کو بروز قیامت جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ضرور جمع کرے گا اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟

فَمَا لَکُمۡ فِی الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِئَتَیۡنِ وَ اللّٰہُ اَرۡکَسَہُمۡ بِمَا کَسَبُوۡا ؕ اَتُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَہۡدُوۡا مَنۡ اَضَلَّ اللّٰہُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ سَبِیۡلًا﴿۸۸﴾

۸۸۔ پھر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو؟ اور اللہ نے ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے انہیں اوندھا کر دیا ہے، کیا تم لوگ اللہ کے گمراہ کردہ کو ہدایت دینا چاہتے ہو؟ حالانکہ جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پاؤ گے۔

88۔یہاں سے آگے منافقین کا ذکر شروع ہو جاتا ہے اور ربط آیت اس طرح ہے کہ جب اچھی بات کی مدد اور سفارش کرنے والے کو نیکی میں حصہ اور بری بات کی سفارش کرنے والے کو گناہ میں حصہ مل جاتا ہے تو پھر تم منافقین کے بارے میں دو گروہ کیوں ہو گئے ہو۔ ان کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ کفر و ضلالت کی اتھاہ گہرائی میں اوندھا کر دیا۔ جب اللہ نہیں چاہتا تو تم کیسے ان کی ہدایت کر سکتے ہو۔

شان نزول : حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: کچھ لوگ مکہ سے مدینہ آئے اور یہ ظاہر کیا کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ پھر مکہ واپس چلے گئے، کیونکہ انہیں مدینہ راس نہ آیا۔ پھر مسلمانوں کا سامان لے کر یمامہ چلے گئے تو مسلمانوں نے ان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ آپس میں اختلاف ہوا۔ کچھ لوگوں نے کہا یہ لوگ مسلمان ہیں، جب کہ کچھ لوگوں نے کہا یہ لوگ مشرکین ہیں۔ اس اختلاف پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مجمع البیان )

وَدُّوۡا لَوۡ تَکۡفُرُوۡنَ کَمَا کَفَرُوۡا فَتَکُوۡنُوۡنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ اَوۡلِیَآءَ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَخُذُوۡہُمۡ وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ ۪ وَ لَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا ﴿ۙ۸۹﴾

۸۹۔ وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہو جاؤ جیسے کافر وہ خود ہیں تاکہ تم سب یکساں ہو جاؤ، لہٰذا ان میں سے کسی کو اپنا حامی نہ بناؤ جب تک وہ راہ خدا میں ہجرت نہ کریں، اگر وہ (ہجرت سے) منہ موڑ لیں تو انہیں پکڑ لو اور جہاں پاؤ قتل کر دو اور ان میں سے کسی کو اپنا حامی اور مددگار نہ بناؤ۔

89۔ جن لوگوں کے بارے میں تمہارے درمیان دو مؤقف وجود میں آگئے، وہ نہ صرف اہل ایمان نہیں ہیں، بلکہ وہ تمہارے ایمان کے بھی خلاف ہیں۔ سیاق آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں ہجرت کی دعوت دینی چاہیے، اگر وہ ہجرت سے منہ موڑ یں تو اس صورت میں ان کے ساتھ قطع تعلق اور قتل کا حکم ہے۔

اِلَّا الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ اَوۡ جَآءُوۡکُمۡ حَصِرَتۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ اَوۡ یُقَاتِلُوۡا قَوۡمَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمۡ عَلَیۡکُمۡ فَلَقٰتَلُوۡکُمۡ ۚ فَاِنِ اعۡتَزَلُوۡکُمۡ فَلَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ وَ اَلۡقَوۡا اِلَیۡکُمُ السَّلَمَ ۙ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ سَبِیۡلًا﴿۹۰﴾

۹۰۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایسے لوگوں سے جا ملیں جن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو یا وہ اس بات سے دل تنگ ہو کر تمہارے پاس آ جائیں کہ تم سے لڑیں یا اپنی قوم سے لڑیں اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کر دیتا اور وہ تم سے ضرور لڑتے لہٰذا اگر وہ تم سے الگ رہیں اور تم سے جنگ نہ کریں اور تمہاری طرف صلح کا پیغام بھیجیں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر بالادستی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔

90۔ دو قسم کے منافقین کو اللہ نے اس حکم قتل سے مستثنیٰ قرار دیا ہے: 1۔ وہ منافق جو ایسی قوم سے جا ملتے ہیں جس کے اور مسلمانوں کے درمیان معاہدہ ہے۔ 2۔ وہ غیر جانبدار منافق جو نہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں، بلکہ وہ امن و آشتی کا پیغام دیتے ہیں۔ ان دو صورتوں میں منافقین کا قتل جائز نہ ہو گا۔