وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡہَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا﴿۸۶﴾ ۞ؒ
۸۶۔ اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو یا انہی الفاظ سے جواب دو، اللہ یقینا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
86۔تحیت و سلام کی رسم تو ہر قوم و ملت میں موجود ہے مگر ان میں تحیت و سلام کا مطلب یہ ہے کہ ادنیٰ انسان کسی بڑے کے سامنے اس کی بڑائی کا اظہار کرے۔ اسلام نے تحیت و سلام کے آداب میں اس قسم کی تفریق مٹا کر اسے امن و سلامتی، صلح و آشتی، مساوات و مؤاسات کا شعار قرار دیا ہے، چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ رسالت مآب ﷺ پر سلام کرنے میں کوئی سبقت نہیں لے سکتا تھا۔ اسلام میں سلام کے آداب کچھ اس طرح ہیں کہ چھوٹے بڑوں کو، راہ گیر بیٹھے ہوئے لوگوں کو، سوار پیادوں کو، تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔
اس آیت میں سلام کے آداب بیان فرمائے گئے ہیں کہ سلام کا جواب بہتر طریقے سے دیں۔ مسلمانوں کو ایک مبلّغ اور داعی کی حیثیت سے اخلاق و شائستگی کا درس دیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی سلام کرے تو اس کا جواب اس سے بہتر طریقے سے دیا کرو۔ واضح رہے سلام کرنا مستحب اور جوابِ سلام واجب ہے۔ حدیث میں آیا ہے: السلام تطوع و الرد فریضۃ ۔