وَ نَادٰی فِرۡعَوۡنُ فِیۡ قَوۡمِہٖ قَالَ یٰقَوۡمِ اَلَیۡسَ لِیۡ مُلۡکُ مِصۡرَ وَ ہٰذِہِ الۡاَنۡہٰرُ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِیۡ ۚ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿ؕ۵۱﴾

۵۱۔اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر کہا: اے میری قوم! کیا مصر کی سلطنت میرے لیے نہیں ہے، اور یہ نہریں جو میرے (محلات کے) نیچے بہ رہی ہیں؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟

اَمۡ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡ ہٰذَا الَّذِیۡ ہُوَ مَہِیۡنٌ ۬ۙ وَّ لَا یَکَادُ یُبِیۡنُ﴿۵۲﴾

۵۲۔ کیا میں اس شخص سے بہتر نہیں ہوں جو بے توقیر ہے اور صاف بات بھی نہیں کر سکتا؟

52۔ اس کے پاس نہ دولت ہے، نہ حشمت، نہ عزت و جلالت۔ وہ اپنا مدعا بھی کھول کر بیان نہیں کر سکتا۔ یہ لکنت کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں بچپن سے تھی۔ فرعون کو یہ معلوم نہیں ہوا ہو گا کہ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں وہ لکنت نہیں ہے۔ بار نبوت اٹھاتے وقت جناب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تھی کہ اللہ آپ علیہ السلام کی زبان کی گرہ کھول دے: وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ۔ (طہ : 27)

فَلَوۡ لَاۤ اُلۡقِیَ عَلَیۡہِ اَسۡوِرَۃٌ مِّنۡ ذَہَبٍ اَوۡ جَآءَ مَعَہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ مُقۡتَرِنِیۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ تو اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں اتارے گئے یا فرشتے اس کے ساتھ یکے بعد دیگرے کیوں نہیں آئے؟

53۔ کہتے ہیں قدیم زمانے میں وزیروں اور شاہی نمائندوں کو دربار کی طرف سے خلعت کے طور پر سونے کا کنگن دیا جاتا تھا اور سپاہیوں کا ایک دستہ بھی اس کے ہمراہ ہو لیتا تھا۔ فرعون ”مکہ“ والوں کے اعتراض کی مانند یہی بات کر رہا ہے کہ یہ رسول، اللہ کا کیسا نمائندہ ہے جس کے ہاتھ میں خشک لاٹھی ہے اور بدن پر کھردرا کپڑا ہے۔

فَاسۡتَخَفَّ قَوۡمَہٗ فَاَطَاعُوۡہُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ چونکہ اس نے اپنی قوم کو بے وقعت کر دیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی، وہ یقینا فاسق لوگ تھے۔

54۔ فرعون نے اپنی قوم کو بے وقعت کر دیا۔ جابر لوگ ہمیشہ اپنی رعیت سے ان کی انسانی قدریں چھین کر انہیں بے وقعت کر دیتے ہیں۔ جب قوم کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی تو پھر یہ قوم جابر طاقتوں کی غلام بن جاتی ہے۔ چنانچہ اس آیت میں اسی نکتہ کو بیان فرمایا: فرعون نے اپنی قوم کو جب بے حیثیت کر دیا تو قوم نے فرعون کی اطاعت کی۔ اسی نکتے کی طرف حضرت امام حسین علیہ السلام نے یزید کی اطاعت کرنے والوں کے لیے اشارہ فرمایا: ان لم یکن لکم دین۔۔۔ فکونوا احراراً فی دنیاکم ۔ (بحار الانوار 45: 50) اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے، تو تم اپنی دنیا میں تو آزاد رہو۔ (بے وقعت نہ بنو)

فَلَمَّاۤ اٰسَفُوۡنَا انۡتَقَمۡنَا مِنۡہُمۡ فَاَغۡرَقۡنٰہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۵۵﴾

۵۵۔ پس جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا پھر ان سب کو غرق کر دیا۔

فَجَعَلۡنٰہُمۡ سَلَفًا وَّ مَثَلًا لِّلۡاٰخِرِیۡنَ﴿٪۵۶﴾

۵۶۔ پھر ہم نے انہیں قصہ پارینہ اور بعد (میں آنے) والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا،

وَ لَمَّا ضُرِبَ ابۡنُ مَرۡیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوۡمُکَ مِنۡہُ یَصِدُّوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور جب ابن مریم کی مثال دی گئی تو آپ کی قوم نے اس پر شور مچایا۔

وَ قَالُوۡۤاءَ اٰلِہَتُنَا خَیۡرٌ اَمۡ ہُوَ ؕ مَا ضَرَبُوۡہُ لَکَ اِلَّا جَدَلًا ؕ بَلۡ ہُمۡ قَوۡمٌ خَصِمُوۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور کہنے لگے: کیا ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ (عیسیٰ)؟ انہوں نے عیسیٰ کی مثال صرف برائے بحث بیان کی ہے بلکہ یہ لوگ تو جھگڑالو ہیں۔

اِنۡ ہُوَ اِلَّا عَبۡدٌ اَنۡعَمۡنَا عَلَیۡہِ وَ جَعَلۡنٰہُ مَثَلًا لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ؕ۵۹﴾

۵۹۔ وہ تو بس ہمارے بندے ہیں جن پر ہم نے انعام کیا اور ہم نے انہیں بنی اسرائیل کے لیے نمونہ ( قدرت) بنا دیا۔

57 تا59۔ ان آیات کے شان نزول میں روایت ہے کہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک بار مسجد میں اہل مکہ کو بتوں کی پرستش کے بارے میں سورۃ الانبیاء کی یہ آیت سنائی: اِنَّکُمۡ وَ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ؕ اَنۡتُمۡ لَہَا وٰرِدُوۡنَ ۔ تم اور اللہ کے علاوہ وہ معبود جن کی تم پرستش کرتے ہو، جہنم کا ایندھن ہیں اور تم اس میں داخل ہو گے۔ اس پر عبد اللہ ابن الزبعری نامی شخص نے کہا : مسیحی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دے کر اس کی پرستش کرتے ہیں تو کیا برا ہے کہ ہم بھی عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوں؟ اس پر مجمع سے قہقہہ بلند ہوا۔ آنے والی آیات میں سلسلہ کلام جاری ہے۔ پھر اس اعتراض کا جواب بھی آئے گا۔

59۔ بنی اسرائیل کے لیے نمونہ بنا دیا۔ یعنی قدرت الٰہی کا نمونہ بنا دیا۔ وہ مردوں کو زندہ کرتے، مادر زاد اندھوں کو بینائی دیتے۔ وہ مٹی کا پرندہ بناتے اس میں روح پھونکتے، وہ پرندہ زندہ ہو جاتا۔

وَ لَوۡ نَشَآءُ لَجَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ مَّلٰٓئِکَۃً فِی الۡاَرۡضِ یَخۡلُفُوۡنَ﴿۶۰﴾

۶۰۔اور اگر ہم چاہتے تو زمین میں تمہاری جگہ فرشتوں کو جانشین بنا دیتے ۔

60۔ اس آیت کی ایک تفسیر وہی ہے، جس کے تحت متن کا ترجمہ ہے۔ بنا بر این مِنۡکُمۡ میں مِن بدل کے لیے ہے، یعنی تمہاری جگہ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو تم میں سے فرشتہ صفت لوگ پیدا کرتے جو ایک دوسرے کے جانشین ہوتے۔ وہ ظاہر میں بشر، لیکن وہ پاکیزگی میں، باطن میں فرشتوں کی طرح ہوتے۔ سیاق آیت کے مطابق پہلی تفسیر درست ہے۔ کیونکہ وَ لَوۡ نَشَآءُ اگر ہم چاہتے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے نہیں چاہا زمین پر تمہاری جگہ فرشتے ہوں۔ دوسری تفسیر میں یہ بات درست نہیں بیٹھتی، اگر ہم چاہتے تو زمین میں فرشتہ صفت بشر پیدا کرتے، لیکن ہم نے نہیں چاہا اور ایسا انسان پیدا نہیں کیا۔