وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَ اتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ﴿۶۱﴾

۶۱۔ اور وہ (عیسیٰ) یقینا قیامت کی علامت ہے پس تم ان میں ہرگز شک نہ کرو اور میری اتباع کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔

61۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی سچائی کی ایک دلیل ہیں۔ جو ذات عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر با پ کے پیدا کر سکتی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے مردوں کو زندہ کر سکتی ہے، وہ ذات قیامت کے دن سب کو زندہ کر سکتی ہے۔

وَ لَا یَصُدَّنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ ۚ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۶۲﴾

۶۲۔ اور شیطان کہیں تمہارا راستہ نہ روکے وہ یقینا تمہارا کھلا دشمن ہے۔

وَ لَمَّا جَآءَ عِیۡسٰی بِالۡبَیِّنٰتِ قَالَ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ لِاُبَیِّنَ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ تَخۡتَلِفُوۡنَ فِیۡہِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ﴿۶۳﴾

۶۳۔ اور عیسیٰ جب واضح دلائل لے کر آئے تو بولے: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور جن بعض باتوں میں تم اختلاف رکھتے ہو انہیں تمہارے لیے بیان کرنے آیا ہوں، پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ﴿۶۴﴾

۶۴۔ یقینا اللہ ہی میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے پس اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔

64۔ یہاں سے کفار مکہ کے اعتراض کا جواب شروع ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کا بیٹا ہوں، تم میری عبادت کرو۔ عیسیٰ کی دعوت کا محور تو توحید اور یکتا پرستی تھا۔

فَاخۡتَلَفَ الۡاَحۡزَابُ مِنۡۢ بَیۡنِہِمۡ ۚ فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡ عَذَابِ یَوۡمٍ اَلِیۡمٍ﴿۶۵﴾

۶۵۔ پھر گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا، پس ظالموں کے لیے دردناک دن کے عذاب سے تباہی ہے۔

65۔اس اختلاف میں ایک گروہ نے ان پر ناروا الزام عائد کیا اور ایک گروہ نے ان کو اللہ کا بیٹا بنا دیا۔

ایک روایت میں رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو عیسیٰ علیہ السلام کا مثل قرار دیا کہ ایک گروہ ان کے بغض میں اور ایک گروہ ان کے بارے میں غلو کے باعث ہلاک ہو جائے گا۔ (مناقب حافظ ابن مردویہ)

ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔ کیا یہ لوگ صرف قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر اچانک آ پڑے اور انہیں خبر بھی نہ ہو؟

اَلۡاَخِلَّآءُ یَوۡمَئِذٍۭ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ؕ٪۶۷﴾

۶۷۔ اس دن دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔

67۔ جو لوگ دنیا میں معصیت کار لوگوں کو اپنا دوست بناتے ہیں، کل قیامت کے دن یہ لوگ دشمن ہو جائیں گے۔ کل صرف وہ دوست کام آئیں گے جو متقی ہیں۔ لہٰذا سمجھداری کا تقاضا ہے کہ دنیا میں متقی لوگوں کی دوستی اختیار کی جائے۔

یٰعِبَادِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ تَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚ۶۸﴾

۶۸۔ (پرہیزگاروں سے کہا جائے گا) اے میرے بندو! آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں ہے اور نہ ہی تم غمگین ہو گے۔

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوۡا مُسۡلِمِیۡنَ ﴿ۚ۶۹﴾

۶۹۔ (یہ وہی ہوں گے) جو ہماری آیات پر ایمان لائے اور وہ مسلمان تھے۔

اُدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ اَنۡتُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ تُحۡبَرُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ (انہیں حکم ملے گا) تم اور تمہاری ازواج خوشی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔