وَ اصۡطَنَعۡتُکَ لِنَفۡسِیۡ ﴿ۚ۴۱﴾

۴۱۔اور میں نے آپ کو اپنے لیے اختیار کیا ہے۔

41۔ یہ فرمانا کہ میں نے تجھے اپنے لیے منتخب کیا ہے، عند اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی منزلت اور رتبہ بتاتا ہے۔

اِذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ اَخُوۡکَ بِاٰیٰتِیۡ وَ لَا تَنِیَا فِیۡ ذِکۡرِیۡ ﴿ۚ۴۲﴾

۴۲۔ لہٰذا آپ اور آپ کا بھائی میری آیات لے کر جائیں اور دونوں میری یاد میں سستی نہ کرنا۔

42۔ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام جب اللہ کی طرف سے معجزاتی اسلحہ سے مسلح ہوئے تو فرمایا: میرے یہ معجزات فرعون کے پاس لے جاؤ۔

وَ لَا تَنِیَا فِیۡ ذِکۡرِیۡ : ذکر خدا کی طاقت سے کبھی بھی غافل نہ ہونا، اگرچہ معجزات موسیٰ علیہ السلام عظیم ہیں، تاہم اس کی پشت پر ذکر خدا اس سے بھی زیادہ عظیم طاقت ہے۔

اِذۡہَبَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿ۚۖ۴۳﴾

۴۳۔ دونوں فرعون کے پاس جائیں کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔

فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی﴿۴۴﴾

۴۴۔ پس دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرنا شاید وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے۔

44۔ تبلیغ و ارشاد میں طرز گفتگو کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے، اس میں یہ نکتہ بھی پنہاں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی تبلیغ کے لیے بھی وسائل کے استعمال کا حکم دیا ہے۔ اگرچہ فرعون سرکش ہو گیا ہے تاہم گفتگو میں پھر بھی نرمی ہو کیونکہ انداز کلام میں اگر شیرینی نہیں ہے تو مضمون کلام خواہ کتنا ہی منطقی اور معقول کیوں نہ ہو، موثر نہیں ہوتا۔

قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنۡ یَّفۡرُطَ عَلَیۡنَاۤ اَوۡ اَنۡ یَّطۡغٰی ﴿۴۵﴾

۴۵۔ دونوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہمیں خوف ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا مزید سرکش ہو جائے گا۔

45۔ اِنَّنَا نَخَافُ : یہاں ذات و جان کا خوف نہیں ہے، بلکہ یہاں خوف دعوت کی کامیابی اور پیشرفت کے بارے میں ہے کہ کہیں دعوت کی راہ میں فرعون کی سرکشی اور زیادتی حائل نہ ہو جائے۔

قَالَ لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِیۡ مَعَکُمَاۤ اَسۡمَعُ وَ اَرٰی ﴿۴۶﴾

۴۶۔ فرمایا: آپ دونوں خوف نہ کریں میں آپ دونوں کے ساتھ ہوں اور (دونوں کی بات) سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔

فَاۡتِیٰہُ فَقُوۡلَاۤ اِنَّا رَسُوۡلَا رَبِّکَ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ وَ لَا تُعَذِّبۡہُمۡ ؕ قَدۡ جِئۡنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الۡہُدٰی﴿۴۷﴾

۴۷۔ دونوں اس کے پاس جائیں اور کہیں: ہم دونوں تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے اور ان پر سختیاں نہ کر، بلاشبہ ہم تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر تیرے پاس آئے ہیں اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔

47۔ رَسُوۡلَا رَبِّکَ : اس میں صراحت موجود ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام شریک رسالت تھے۔

فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ : فرعون بنی اسرائیل سے بیگار لیتا تھا اور مصری معاشرے میں بنی اسرائیل نسلی تعصب کا شکار رہتے تھے۔ اس لیے بنی اسرائیل کو اس ذلت آمیز زندگی سے نکالنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذمہ دار ی بن گئی تھی۔ لوگوں کو اس دنیا میں عزت کی زندگی دینا انبیاء کی ذمہ داری ہے۔

اِنَّا قَدۡ اُوۡحِیَ اِلَیۡنَاۤ اَنَّ الۡعَذَابَ عَلٰی مَنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی﴿۴۸﴾

۴۸۔ ہماری طرف یقینا وحی کی گئی ہے کہ عذاب اس شخص کے لیے معین ہے جو تکذیب کرے اور منہ موڑے۔

قَالَ فَمَنۡ رَّبُّکُمَا یٰمُوۡسٰی﴿۴۹﴾

۴۹۔ فرعون نے کہا: اے موسیٰ! تم دونوں کا رب کون ہے؟

49۔ فرعون کو مصر میں سورج دیوتا کا مظہر سمجھا جاتا تھا اور جس طرح سورج ان کا سب سے بڑا معبود تھا خود فرعون بھی معبود کا درجہ رکھتا تھا کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق فرعون کی پرستش عین سورج کی پرستش سمجھی جاتی تھی۔

فرعون کا سوال: تم دونوں کا رب کون ہے؟ بتاتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام اور فرعون میں بنیادی اختلاف رب پر ہے۔

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی﴿۵۰﴾

۵۰۔ موسیٰ نے کہا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی ۔

50۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت عطا کی اور تخلیق کے بعد اسے اپنے حال پر نہیں چھوڑا بلکہ اس کے زندہ رہنے کے طور طریقوں کی ہدایت (تکوینی) اور جن باتوں پر ان موجودات کی بقا و ارتقا موقوف ہے، ان کی سوجھ بھی ان میں ودیعت فرمائی۔ جو سوجھ بوجھ خلقت کے ہمراہ ودیعت ہوئی ہے، وہ تکوینی اور فطری ہے اور جو خلقت کی تکمیل کے بعد ہدایت ملے گی وہ تشریعی ہے۔ اس آیت کے اطلاق میں دونوں ہدایتیں شامل ہیں۔