فَاۡتِیٰہُ فَقُوۡلَاۤ اِنَّا رَسُوۡلَا رَبِّکَ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ وَ لَا تُعَذِّبۡہُمۡ ؕ قَدۡ جِئۡنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الۡہُدٰی﴿۴۷﴾
۴۷۔ دونوں اس کے پاس جائیں اور کہیں: ہم دونوں تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے اور ان پر سختیاں نہ کر، بلاشبہ ہم تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر تیرے پاس آئے ہیں اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔
47۔ رَسُوۡلَا رَبِّکَ : اس میں صراحت موجود ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام شریک رسالت تھے۔
فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ : فرعون بنی اسرائیل سے بیگار لیتا تھا اور مصری معاشرے میں بنی اسرائیل نسلی تعصب کا شکار رہتے تھے۔ اس لیے بنی اسرائیل کو اس ذلت آمیز زندگی سے نکالنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذمہ دار ی بن گئی تھی۔ لوگوں کو اس دنیا میں عزت کی زندگی دینا انبیاء کی ذمہ داری ہے۔