وَ لَا تُطِیۡعُوۡۤا اَمۡرَ الۡمُسۡرِفِیۡنَ﴿۱۵۱﴾ۙ

۱۵۱۔ اور حد سے تجاوز کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو۔

الَّذِیۡنَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا یُصۡلِحُوۡنَ﴿۱۵۲﴾

۱۵۲۔ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔

قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مِنَ الۡمُسَحَّرِیۡنَ﴿۱۵۳﴾ۚ

۱۵۳۔ لوگوں نے کہا: تم تو بلاشبہ سحرزدہ آدمی ہو۔

مَاۤ اَنۡتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ۚۖ فَاۡتِ بِاٰیَۃٍ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۱۵۴﴾

۱۵۴۔ اور تم ہم جیسے بشر کے سوا اور کچھ نہیں ہو، پس اگر تم سچے ہو تو کوئی نشانی (معجزہ ) پیش کرو۔

قَالَ ہٰذِہٖ نَاقَۃٌ لَّہَا شِرۡبٌ وَّ لَکُمۡ شِرۡبُ یَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍ﴿۱۵۵﴾ۚ

۱۵۵۔ صالح نے کہا: یہ ایک اونٹنی ہے، ایک مقررہ دن اس کے پانی پینے کی باری ہو گی اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی پینے کی باری ہو گی۔

155۔ یعنی ایک پورا دن صرف یہ ایک اونٹنی کنویں سے پانی پیئے گی اور ایک دن تم اور تمہارے جانور پانی پئیں گے۔ یہ بات ان کے لیے ایک امتحان تھی کیونکہ عرب کے صحراؤں میں پانی کی کمیابی ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس تقسیم کو برداشت کرنا ان کے لیے ناقابل تحمل تھا اور ان کی سرکشی بڑھ گئی تھی، اس لیے ان کو ایسی آزمائش میں مبتلا کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے ناقہ صالح کو قتل کیا اور عذاب الہی کے مستحق قرار پائے۔

وَ لَا تَمَسُّوۡہَا بِسُوۡٓءٍ فَیَاۡخُذَکُمۡ عَذَابُ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۵۶﴾

۱۵۶۔ اور اسے بری نیت سے نہ چھونا ورنہ ایک بڑے (ہولناک) دن کا عذاب تمہیں گرفت میں لے لے گا۔

فَعَقَرُوۡہَا فَاَصۡبَحُوۡا نٰدِمِیۡنَ﴿۱۵۷﴾ۙ

۱۵۷۔ تو انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر وہ ندامت میں مبتلا ہوئے۔

157۔ ناقہ صالح کو تو صرف ایک شخص نے قتل کیا تھا۔ نسبت پوری قوم کی طرف دی جا رہی ہے؟ اس کا جواب حضرت علی علیہ السلام سے مروی ایک فرمان میں ہے: رضایت اور نارضایت سے جماعت تشکیل پاتی ہے۔ صرف ایک شخص نے ناقہ صالح کی کونچیں کاٹی تھیں، لیکن عذاب پوری قوم پر نازل ہوا، کیونکہ پوری قوم اس جرم پر راضی تھی۔ اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا عَقَرَ نَاقَۃَ صَالِحٍ رَجُلٌ وَاحِدٌ فَاَصَابَہُمُ اللّٰہُ بِعَذَابِہِ بِالرِّضَا لِفِعْلِہِ ۔ (مستدرک الوسائل12: 193)

فَاَخَذَہُمُ الۡعَذَابُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ؕ وَ مَا کَانَ اَکۡثَرُہُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۵۸﴾

۱۵۸۔ چنانچہ عذاب نے انہیں گرفت میں لے لیا، یقینا اس میں ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔

وَ اِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۵۹﴾٪

۱۵۹۔ اور بے شک آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

کَذَّبَتۡ قَوۡمُ لُوۡطِ ۣ الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۱۶۰﴾ۚۖ

۱۶۰۔ قوم لوط نے (بھی) رسولوں کی تکذیب کی۔